الاٰخرۃ‘‘ دینی اور روحانی شخصیتوں کی تاریخ میں ہر جگہ یہی نظر آتا ہے کہ وہ اس دنیا میں مسافرانہ گزر کرتے تھے اور ان کے سامنے ہمیشہ یہی ارشاد نبوی رہتا تھا۔
’’ما لی وللدنیا وما انا والدنیا الا کراکب استظل تحت شجرۃ ثم راح وترکہا (احمد، ترمذی، ابن ماجہ)‘‘ مجھے دنیا سے کیا سروکار؟ میری مثال تو ایسے سوار کی سی ہے۔ جس نے کچھ دیر ایک درخت کے سایہ میں آرام لیا۔ پھر اٹھا اور چھوڑ کر چل دیا۔
ان کی کیفیت وہ رہتی تھی۔ جو حضرت علیؓ کے ایک رفیق نے ان کی تعریف کرتے ہوئے بیان کی ہے: ’’یستوحش من الدنیا وزھرتہا ویستانس بالیل وظلمتہ کان واﷲ غزیرالدمعۃ طویل الفکرۃ یقلب کفہ ویخاطب نفسہ یعجبہ من اللباس ما خشن ومن الطعام ما جشب (صفۃ الصفوۃ)‘‘ دنیا اور بہار دنیا سے ان کو وحشت ہوتی، رات کی تاریکی میں ان کا دل لگتا تھا۔ آنکھیں پر آب ہر وقت فکر وغم میں ڈوبے ہوئے، رفتار زمانہ پر متعجب، نفس سے ہر وقت مخاطب، کپڑا وہ مرغوب جو معمولی اور موٹا جھوٹا ہو۔ غذا وہ مرغوب جو غریبانہ اور سادہ ہو۔
اولیائے متقدمین اور اسلام کی جلیل القدر روحانی شخصیتوں کا یہاں ذکر نہیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا بھی یہاں تذکرہ نہیں کہ وہ بھی ایک خلیفۂ راشد تھے۔ رسول اﷲﷺ کے غلاموں میں ایسے صاحب شوکت وعظمت سلاطین گزرے ہیں جن کا زہد وتقشف، جفاکشی، احتیاط وورع، قبائے شاہی میں فقیری ودرویشی اور تخت سلطنت پر بوریہ نشینی آج بھی تاریخ میں یاد گار اور انسانیت کے لئے سرمایۂ افتخار ہے۔ نورالدین زنگیؒ، صلاح الدین ایوبیؒ، ناصر الدین محمودؒ، مظفر حلیمؒ اور سلطان اورنگزیب عالمگیرؒ ۱؎نے جس طرح کی زندگی گزاری، وہ زہد ودرویشی کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ خود مرزاقادیانی کے زمانہ میں ایسے داعی الیٰ اﷲ علمائے ربانی اور مشائخ طریقت موجود تھے۔ جو
۱؎ سلطان کے سوانح نگار اور ان کے معتمد خاص قاضی ابن شداد لکھتے ہیں کہ سلطان نے اپنے ترکہ میں صرف ۴۷ درہم چھوڑے تھے۔ کوئی ملک، مکان، جائیداد، باغ، گاؤں، زراعت نہیں چھوڑی۔ ان کی تجہیز وتکفین میں ایک پیسہ بھی ان کی میراث سے صرف نہیں ہوا۔ سارا سامان قرض سے کیاگیا۔ یہاں تک کہ قبر کے لئے گھاس کے پولے بھی قرض سے آئے۔ کفن کا انتظام ان کے وزیر وکاتب قاضی فاضل نے کسی جائز وحلال ذریعہ سے کیا اور یہ اس سلطان کا حال ہے جس کے قبضہ میں شام، مصر، سوڈان، عراق وحجاز اور مشرق وسطیٰ کا پورا علاقہ تھا۔