یہ حالت اس وقت تک رہی کہ مرزاقادیانی ایک مصنف اور اسلام کے وکیل کی حیثیت سے ملک کے سامنے آئے۔ پھر انہوں نے ایک مبلغ اور روحانی پیشواء کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔ پھر انہوں نے مسیح موعود اور آخر میں ’’مستقل پیغمبر‘‘ کی حیثیت اختیار کی۔ اس وقت حالات میں بڑا انقلاب ہوا۔ اب وہ ایک ترقی پذیر فرقہ اور ایک آسودہ حال طبقہ کے روحانی پیشواء اور مقتدائے اعظم تھے۔ ہر طرف سے تحائف نذرانوں اور پیشکشوں کا دریا امنڈ رہا تھا اور وہ ہزاروں آدمیوں کی روحانی عقیدت اور خلوص ومحبت کا مرکز تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ ساری دولت فارغ البالی وخوشحالی ایک دینی دعوت اور تحریک کے راستہ سے آئی تھی اور ایک دینی جذبہ ہی لوگوں کے ایثار اور مرزاقادیانی کی مالی خدمت کا محرک تھا۔ ایک مؤرخ اور سوانح نگار اور ایک نقاد اس موقع پر یہ دیکھے گا کہ اس انقلاب حال نے مرزاقادیانی کی زندگی اور ان کے رویہ میں کیا تبدیلی پیدا کی۔ مرزاقادیانی ایک بڑی دینی دعوت لے کر اور ایک بہت بڑے دعوے اور اعلان کے ساتھ (جس سے بڑا دعویٰ اور اعلان مذہب کی اصطلاحات اور زبان میں ممکن نہیں) کھڑے ہوئے تھے۔ اس لئے یہ بات دیکھنے کی ہے کہ ان کی زندگی کو اس دعوت اور دعوے سے کیا مطابقت اور مناسبت ہے۔ سرور عالم سیدالانبیاء (ﷺ) کی حیات طیبہ سے موازنہ کرنا اور اس سلسلہ میں آپ کا نام نامی بیچ میں لانا تو سوء ادب اور مذاق سلیم پر بھی بار ہے کہ یہ وہ بارگاہ قدس ہے کہ ؎
نفس گم کردہ می آید جنیدؒ وبایزیدؒ اینجا
لیکن امت محمدی کے ان افراد کی زندگی سے موازنہ بیجا نہ ہوگا۔ جو کسی دینی تحریک ودعوت کے علمبردار اور اپنے زمانہ کے مقتداء اور روحانی پیشوا تھے۔
حاملین دعوت اور دینی وروحانی شخصیتوں کا طرز عمل
اسلام کی تاریخ دعوت وتجدید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ اپنے زمانہ میں دینی دعوت واصلاح کے علمبردار تھے اور جنہوں نے اپنے لئے اتباع نبویؐ کا راستہ اختیار کیا اور جن کو خدا نے حلاوت ایمانی سے شادکام کیا۔ ان کو جس قدر مرجعیت حاصل ہوئی اور جس قدر ان کے لئے فارغ البالی اور آسودہ زندگی کے اسباب مہیا ہوئے۔ اسی قدر ان میں زہد کا جذبہ، ایثار وقناعت کا جوش، دولت وامارت سے وحشت اور آخرت کا شوق بڑھا۔ ان کی ساری زندگی اس اصول ویقین کے ماتحت تھی کہ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ ’’اللہم لا عیش الا عیش