روضۂ آدم کہ تھا وہ ناکمل اب تلک
میرے آنے سے ہوا کامل بجملہ برگ وبار
(براہین احمدیہ ج۵ ص۱۱۳، خزائن ج۲۱ ص۱۴۴)
ان کا یہ خیال بھی معلوم ہوتا ہے کہ کمالات نبوت اور کمالات روحانیت کے زمانہ کی ترقی کے ساتھ ساتھ ترقی کی ہے اور ان کا ظہور اتم ان کی ذات میں ہوا ہے۔ ’’فکذلک طلعت روحانیۃ نبیناﷺ فی الالف الخامس باجمال صفاتہا وما کان ذلک الزمان منتہی ترقیاتہا بل کانت قدما اولی لمعارج کمالاتہا ثم کملت وتجلت تلک الروحانیۃ فی اٰخر الالف السادس اعنی فی ہذا الحین کما خلق اٰدم فی اٰخر الیوم السادس باذن اﷲ احسن الخالقین واتخذت روحانیۃ نبینا خیر الرسل مظہرا من امتہ لتبلغ کمال ظہورھا وغلبۃ نورھا کما کان وعداﷲ فی الکتاب المبین فأنا ذلک المظہر الموعود والنور المعہود‘‘ اسی طرح ہمارے نبی کریمﷺ کی روحانیت نے پانچویں ہزار میں اجمالی صفات کے ساتھ ظہور فرمایا اور وہ زمانہ اس روحانیت کی ترقی کا منتہی نہ تھا۔ بلکہ اس کے کمالات کی معراج کے لئے پہلا قدم تھا۔ پھر اس روحانیت نے چھٹے ہزار کے آخر میں یعنی اس وقت پوری طرح سے تجلی فرمائی۔ جیسا کہ آدم چھٹے دن کے آخر میں احسن الخالقین خدا کے اذن سے پیدا ہوا ار خیر رسل کی روحانیت نے اپنے ظہور کمال کے لئے اور اپنے نور کے غلبہ کے لئے ایک مظہر اختیار کیا۔ جیسا کہ خداتعالیٰ نے کتاب مبین میں وعدہ فرمایا تھا۔ پس میں وہی مظہر ہوں، وہی نور معہود ہوں۔‘‘ (خطبہ الہامیہ ص۱۷۷،۱۷۸، خزائن ج۱۶ ص۲۶۶، ۲۶۷)
اعجاز احمدی میں تو انہوں نے اپنے معجزات وآیات کو معجزۂ نبوی پر ترجیح دینے کی کوشش بھی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں ؎
لہ خسف القمر المنیر وان لی
غسا القمر ان المشرقان اتنکر
(اعجاز احمدی ص۷۱، خزائن ج۱۹ ص۱۸۳)
اور خود ہی اس کا ترجمہ کیا ہے: ’’اور اس کے لئے چاند کے خسوف کا نشان ظاہر ہوا اور میرے لئے چاند وسورج دونوں کا۔ اب کیا تو انکار کرے گا۔‘‘