ایک دوسری کتاب میں لکھتے ہیں: ’’اسی جگہ یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ہمارے نبیﷺ کی روحانیت بھی اسلام کے اندرونی مفاسد کے غلبہ کے وقت ہمیشہ ظہور فرماتی رہتی ہے اور حقیقت محمدیہ کا حلول کسی کامل متبع میں جلوہ گر ہوتا ہے اور جو حدیث میں آیا ہے کہ مہدی پیدا ہوگا۔ اس کا نام میرا ہی نام ہوگا۔ اس کا خلق میرا ہی خلق ہوگا۔ اگر یہ حدیثیں صحیح ہیں تو اسی نزول روحانیت کی طرف اشارہ ہے۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۳۴۶، خزائن ج۵ ص۳۴۶)
آئینۂ کمالات اسلام میں ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں: ’’میرے پر کشفاً یہ ظاہر کیاگیا ہے کہ یہ زہر ناک ہوا۔ جو عیسائی قوم سے دنیا میں پھیل گئی ہے۔ حضرت عیسیٰ کو اس کی خبر دی گئی۔ تب ان کی روح روحانی نزول کے لئے حرکت میں آئی اور اس نے جوش میں آکر اور اپنی امت کو ہلاکت کا مفسدہ پرداز پاکر زمین میں اپنا قائم مقام اور شبیہ چاہا جو اس کا ہم طبع ہو۔ گویا وہی ہو۔ سو اس کو خدائے تعالیٰ نے وعدہ کے مطابق ایک شبیہ عطا کی اور اس میں مسیح کی ہمت اور سیرت اور روحانیت نازل ہوئی اور اس میں اور مسیح میں بشدت اتصال کیاگیا۔ گویا وہ ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے بنائے گئے اور مسیح کی توجہات نے اس کے دل کو اپنی قرارگاہ بنایا اور اس میں ہوکر اپنا تقاضا پورا کرنا چاہا۔ پس ان معنوں سے اس کا وجود مسیح کا وجود ٹھہرا اور مسیح کے پرجوش ارادت اس میں نازل ہوئے۔ جن کا نزول الہامی استعارات میں مسیح کا نزول قرار دیا گیا۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۲۵۴،۲۵۵، خزائن ج۵ ص۲۵۴،۲۵۵)
نبی کی دو بعثتیں
مرزاقادیانی کا یہ بھی عقیدہ اور اعلان ہے کہ آنحضرتﷺ کی دو بعثتیں تھیں۔ یہاں انہیں کے عربی متن وترجمہ کی دو عبارتیں نقل کی جاتی ہیں: ’’واعلم ان نبیناﷺ کما بعث فی الالف الخامس کذالک بعث فی الاخر الالف السادس باتخاذہ بروز المسیح الموعود‘‘ اور جان کہ ہمارے نبیﷺ جیسا کہ پانچویں ہزار میں مبعوث ہوئے۔ ایسا ہی مسیح موعود کی بروزی صورت اختیار کر کے چھٹے ہزار کے آخر میں مبعوث ہوئے۔ ‘‘
(خطبہ الہامیہ ص۱۸۰، خزائن ج۱۶ ص۲۷۰)
آگے چل کر لکھتے ہیں کہ بعثت ثانیہ بعثت اولیٰ سے کہیں زیادہ طاقتوں کامل اور روشن ہے: ’’بل الحق ان روحانیتۃ علیہ السلام کان فی اٰخر الالف السادس اعنی فی ہذہ الایام اشد واقویٰ واکمل من تلک الاعوام بل کالبدر التام‘‘ بلکہ حق یہ