جو پہلے ہی نبی ہوں ان کو پھر نبی ثابت ہونے کے لئے نشانات پر قرعہ ڈال کر تقسیم کرنے کی کیا ضرورت۔ یہ تو آزمودہ را۔ آزمودن اور تحصیل حاصل کا مضمون ہے۔ غالباً مرزاقادیانی کا یہ مطلب ہوگا کہ میرے اندر جھوٹے ہونے کے ایسے صاف نشان ہیں کہ اگر وہ دس ہزار صادق نبیوں پر تقسیم کر دئیے جائیں۔ باوجودیکہ وہ مسلم، نیکوکار اور معصوم ہوں۔ پھر بھی سچے ثابت نہیں ہوسکتے۔ نعوذ باﷲ!
جس طرح کہا جاوے کہ میرے سر پر اتنا بوجھ ہے۔ اگر اسے دس نوجوانوں پر تقسیم کر دیا جاوے تو بھی اٹھا کر چل نہ سکیں۔ ورنہ اس کی کیا ضرورت ہے کہ کوئی شخص کہے کہ ’’ازالہ اوہام‘‘ کسی بی۔اے کو پڑھا دیا جاوے تو وہ بی۔اے ثابت ہو سکتا ہے۔ ہاں یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ ایک مسلمان کو ازالہ اوہام پر عمل کرادیا جائے تو وہ مسلمان نہیں رہ سکتا۔ کاش کہ مرزاقادیانی پر یہ اعتراض ان کی زندگی میں ہوا ہوتا۔ پھر دیکھتے کہ اگر یہی میرے والی تاویل وہ نہ کر دکھاتے تو تأسف تھا۔ الغرض خلیفہ صاحب کا دعویٰ کہ مرزاقادیانی نبی ہیں اور انہوں نے اپنی نبوت کو سمجھا نہیں تھا۔ ۱۹۰۲ء اور پھر ۱۹۰۱ء میں انہوں نے تبدیل کر کے اصل نبوت کا دعویٰ کیا اور اس کے بعد پھر نبی ہی رہے۔ پھر کبھی انہوں نے حقیقی نبوت کی تاویل اپنے لئے نہیں کی اور رسول کریم کو آخری نبی نہیں کہا اور ختم نبوت سے انکار کر دیا۔ وغیرہ! ہم اپنے ناظرین کو اس دعویٰ کا ابطال بھی دکھانا چاہتے ہیں۔ تاکہ جو جھوٹا ہے وہ سچا نہ ہو جائے۔ ورنہ پھر سچے اور جھوٹے میں فرق کیا ہوگا۔ جس نے زیادہ ہیرپھیر کئے وہی نبی اور خلیفہ بن گیا۔ لہٰذا ہم خلیفہ صاحب کے اس دعویٰ کو ایک دو حوالوں کو نقل کر کے باطل ثابت کرتے ہیں۔
کتاب (ضمیمہ حقیقت الوحی ص۶۴، خزائن ج۲۲ ص۶۸۸) میں لکھتے ہیں کہ: ’’والنبوۃ قد انقطعت بعد نبیناﷺکہ رسول کریم کے بعد نبوت ختم ہوچکی ہے۔‘‘
شاید قادیانی دوست اس عبارت کی بھی تاویل کر کے یہ کہیں کہ ختم ہونے کے معنی یہ نہیں کہ آئندہ کوئی نبی نہ آئے تو اس کا جواب یہ ہے کہ عبارت عربیہ میں انقطعت کا لفظ ہے۔ جس کے معنی ہیں کہ رسول کریمﷺ کے بعد نبوت منقطع ہوچکی اور کوئی نبی اس کے بعد نہیں آئے گا۔
پس قادیانی دوست تو رسول کریمﷺ کو نبی گر قرار دیا کرتے ہیں۔ مگر مرزاقادیانی نے عبارت مذکورہ میں رسول پاک کو قاطع النبوۃ قرار دیا ہے۔
اور حمامتہ البشریٰ جو مرزاقادیانی کی کتاب ہے اور وہ ۲۷؍جولائی ۱۹۰۳ء میں طبع ہوئی۔ اس کتاب میں آپ لکھتے ہیں کہ: ’’میں نے اپنی بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ تحدیث کا مقام