اس کے جواب میں مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ: ’’مثیل مسیح کا نام ہی ابن مریم رکھاگیا ہے۔ مثلاً تم سوچو کہ جو لوگ اپنی اولاد کے نام موسیٰ، داؤد، عیسیٰ وغیرہ رکھتے ہیں۔ اگرچہ ان کی غرض تو یہی ہوتی ہے کہ وہ نیکی میں اور خیروبرکت میں ان نبیوں کے مثیل ہو جائیں۔ مگر پھر وہ اپنی اولاد کو اس طرح کر کے تو نہیں پکارتے کہ اے مثیل موسیٰ اے مثیل داؤد وغیرہ۔‘‘
بلکہ اصل نام ہی بطور تفاول پکارا جاتا ہے۔ پس کیا جو امر انسان محض تفاول کی راہ سے کر سکتا ہے۔ وہ قادر مطلق نہیں کر سکتا۔
’’کیا اس کو طاقت نہیں کہ ایک آدمی کی روحانی حالت دوسرے آدمی کے مشابہ کر کے وہی نام اس کا رکھ دے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۴۱۱، خزائن ج۳ ص۳۱۳)
ناظرین کرام! اب غور سے پڑھیں کہ مرزاقادیانی اب اپنے دعویٰ میں آہستہ آہستہ کس طرح آگے بڑھتے ہیں۔ مگر یہ خیال نہ کیا جاوے کہ اسی بات میں ان کو کوئی تقویٰ یا خداترسی مدنظر ہے۔ بلکہ ہم آگے چل کر بتلائیں گیے کہ جب ضرورت پڑی تو ان دعاوی سے انکار کر دیا اور مندرجہ بالا عبارت میں بھی مرزاقادیانی نے ڈوبتے کو تنکے کے سہارا کی مثل قائم کی ہے۔ ورنہ دنیا جانتی ہے کہ والدین جو اپنی اولاد کے نام عیسیٰ موسیٰ رکھتے ہیں تو یہ کسی خوبی یا عیسیٰ وموسیٰ جیسی حرکت کی بناء پر نہیں رکھتے۔ بلکہ بزرگانہ رکھتے ہیں۔ پھر مرزاقادیانی کا یہ کہنا کہ جس میں کوئی ان جیسی خوبی دیکھی ان کا نام ان کے نام پر رکھ دیا۔ مماثلت حقیقی ظاہر نہیں کرنا بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی کو اس ڈھکوسلے کی کوئی مثال نہیں ملی۔ پھر مرزاقادیانی کا یہ لکھنا کہ کیا خدا کو طاقت نہیں کہ میرا نام مسیح کے نام پر رکھ دے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ کیا خدا میں یہ طاقت نہیں کہ مسیح کو آسمان پر لے جاوے۔ پھر کہتے ہیں کہ اس وقت کے بزرگ بھی مجھے لکھتے ہیں کہ ؎
ہم مریضوں کی ہے تمہیں پہ نظر
تم مسیحا بنو خدا کے لئے
حالانکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں کہ شعر کسی اور نے مرزاقادیانی کو لکھا تھا۔ اب مرزاقادیانی نے دعویٰ نبوت کرنا شروع کر دیا۔ مگر لوگوں نے شور کیا تو مرزاقادیانی لکھتے ہیں۔
’’ہم نے جو رسالہ فتح اسلام اور توضیح المرام میں اس اپنے کشفی الہام کو شائع کیا ہے کہ مسیح موعود سے مراد یہی عاجز ہے۔ میں نے سنا ہے کہ بعض ہمارے علماء اس پر بہت افروختہ ہوئے ہیں اور انہوں نے اس بیان کو ایسی بدعات سے سمجھ لیا ہے۔ جو خارج اجماع اور برخلاف عقیدہ