طوالت بیان درج نہیں ہوسکا۔ جس کا ماحصل یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی دنیا میں مرزاقادیانی جیسے بلکہ اس سے بڑھ کر بہت سے جھو۱؎ٹے نبی، مسیح، مہدی، بننے کا دعویٰ کرنے والے ہیں۔ پیدا ہوکر اور اپنے کیفر کردار کو پہنچ کر حرف غلط کی طرح صفحۂ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔
اس کے بعد مولوی تاج الدین احمد جو ہر مختار چیف کورٹ پنجاب وسیکرٹری انجمن نعمانیہ نے مولانا مولوی محمد حسن صاحب کی تائید کی اور مرزاقادیانی کے چند اشتہارات اور ان کی اس قسم کی کاروائیوں پر نہایت تہذیب اور شائستگی سے نکتہ چینی کی۔ بعد ازاں جناب حضرت مولانا ابوسعد محمد عبدالخالق سجادہ نشین جہاں خیلان شریف نے مرزاقادیانی اور اس کی بیہودہ کاروائیوں کی نسبت چند ریمارک کئے۔
۶… پھر ایک نابینا حافظ صاحب نے اپنے آپ کو (ظریف) متخلص کرتے تھے۔ ایک ظریفانہ نظم پڑھی۔ جس کی نسبت حضرت ابوسعید محمد عبدالخالق موصوف نے فوراً کھڑے ہوکر فرمایا یہ ظریفانہ نظمیں پڑھنے کا موقع نہیں ہے۔ بلکہ یہاں تو اقوال فیصل اہل الرائے علمائے کرام کے بکار ہیں۔۷… اس کے بعد ابوالوفاء مولانا مولوی ثناء اﷲ امرتسری (شیر پنجاب سرکوب بدزباناں مرد میدان، فاتح قادیان) مرزاقادیانی کی تمام پیش گوئیوں کے غلط ثابت ہونے کی نسبت زبردست دلائل بیان فرمائے اور یہ بھی فرمایا کہ ایسے شخص کو مخاطب کرنا یا اس کی کسی تحریر کا جواب دینا بھی گویا علمائے کرام کی ہتک اور ان کی شان سے بعید ہے۔ ’’اعجاز المسیح‘‘ وغیرہ کے جواب نہ لکھے جانے کی وجہ آنکھیں کھول کر ملاحظ کی جائے۔
۸… مولانا حافظ مولوی سید جماعت علی شاہ صاحبؒ سجادہ نشین نے عقائد مرزاقادیانی کے متعلق تردیداً اور کچھ جناب پیر مہر علی شاہ صاحبؒ کی تشریف آوری کی نسبت تائیداً نہایت عمدگی سے بیان فرمایا۔
۱؎ مثل ’’مسیلمتہ الکذاب وسجاح وعنسی ومحمد بن تومرت وغیرہم‘‘ سرزمین عرب میں اور ’’سید محمد جونپوری‘‘ ہندوستان میں پون صدی کے اخیر میں جس کے قدم بقدم مرزاقادیانی نے نبوت کے دعویٰ میں شاگردی کی ہے۔ یہاں تک کہ اپنے بیٹے کا نام بھی اس کے بیٹے کے نام پر محمود رکھا۔