کے مقابلہ پر لاہور نہ جاؤں تو پھر میں (یعنی مرزاقادیانی) مردود، جھوٹا اور ملعون ہوں۔ اس شدومد کے اشتہار کے بعد جب اس کو پیر صاحب نے مع دیگر علمائے کرام بہ منظوری شرائط لاہور میں طلب کیا تو مرزاقادیانی کی طرف سے سوائے بزدلانہ گریز کے اور کوئی کارروائی نہ ظہور میں آئی۔ سخت افسوس کا موقعہ ہے کہ مرزاقادیانی کے مریدین مرزاقادیانی کے اس علانیہ جھوٹ کو ملاحظہ کریں۔ انہیں دنوں میں جب کہ پیر صاحبؒ خاص لاہور میں سینکڑوں علماء وفقراء اور ہزاروں مریدوں کے ساتھ تشریف رکھتے ہیں۔ اس مضمون کے اشتہارات شائع کر رہے ہیں کہ پیر صاحب مباحثہ سے بھاگ۱؎ گئے اور شرائط سے انکار کر گئے۔
سبحان اﷲ! ڈھٹائی اور بے شرمی ہو تو ایسی کہ ’’دروغ گویند براوبے ما۔‘‘ اس موقع پر مرزاقادیانی کی مسیحی تعلیم پر سخت افسوس آتا ہے کہ کیا امام زمان کے تعلیم کا یہی اثر ہونا چاہئے کہ ایسا سفید جھوٹ لکھ کر مشتہر کیا جاوے، اور زیادہ افسوس اس پر ہے کہ ہندو اخبارات بھی مرزائیوں کی اس ناشائستہ حرکت پر نفرین کر رہے اور ہنسی اڑا رہے ہیں۔ میں ازجانب اہالیان جلسہ جن کی تعداد کئی ہزار ہے اور پنجاب کے مختلف اضلاع کے رہنے والے ہیں۔ اس امر کا صدق دل سے اعتراف کرتا ہوں کہ پیر صاحبؒ نے مع ان علمائے کرام ومشائخ عظام کے جو آپ کے ساتھ شامل ہیں۔ اسلام کی ایک بے بہا خدمت کی ہے اور مسلمانوں کو بے انتہا مشکور فرمایا ہے اور ہزار ہزار شکر ہے کہ آئندہ کو بہت سے مسلمان بھائی مرزاقادیانی کے اس سلسلہ حرکات سے ان کے دام تزویر میں گرفتار ہونے سے بچ گئے۔ (الیٰ آخرہ)
آخر میں مولانا صاحب نے ایک پرزور تقریر میں بالتفصیل یہ بھی بیان کیا، جو بوجہ
۱؎ اس کی تصدیق بغیر دیکھے وہ حضرات بخوبی کر سکتے ہیں۔ جو ’’مونگیر‘‘ کے مناظرہ میں شریک تھے۔کیونکہ جو اہل علم مرزائیوں کے متعدد مناظروں میں شریک رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ جس قدر ناکامی اور ذلت مرزائیوں کو مونگیر کے مناظرہ میں ہوئی۔ کہیں نہیں ہوئی۔ مگر مرزائیوں نے اس کی کیفیت چھاپی ہے۔ اس کے ٹائٹل پر ’’فتح عظیم‘‘ لکھا ہے۔ اسی طرح جب لدھیانہ میں قاسم علی مرزائی کو شکست فاش ہوئی اور موافق شرط کے حکم سے تین سو روپیہ مولوی ثناء اﷲؒ کو دلوایا۔ مگر اس کے بعد ایک مرزائی کا اشتہار نکلا۔ جس کے عنوان پر موٹے قلم سے لکھا تھا۔ ’’فتح روحانی‘‘ اس کذابی اور بے شرمی کا کیا ٹھکانا ہے؟