ہوگئے اور حسب درخواست اس کے ۲۵؍اگست ۱۹۰۰ء تاریخ مباحثہ مقرر کی۔ چنانچہ تاریخ مذکور پر پیر صاحبؒ موصوف لاہور تشریف لے آئے۔ مرزاقادیانی کا اصلی منشاء تو صرف اپنی شہرت اور تشہیر کا تھا۔ بقول شاعر ؎
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کامبد نام بھی ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
یہ مقصد تو اس ہتھکنڈے سے اچھی طرح حاصل ہوچکا تھا۔ باقی رہا واقعی مقابلہ سو ان کا جانگداز خیال مرزاقادیانی کو لاہور، دہلی، لدھیانہ وغیرہ مقامات کا وہ برا اور پردرد نظارہ کا سماں (جس میں اس کی خفت اور بے عزتی میں کوئی دقیقہ باقی نہیں رہا تھا) دکھلاتا تھا۔ اس لئے مرزاقادیانی نے لاہور تک آنا گوارا نہ کیا۔
پیر مہر علی شاہ صاحبؒ مورخہ ۲۴تاریخ سے ۲۹؍اگست ۱۹۰۰ء برابر لاہور میں مقیم رہ کر مرزاقادیانی کی آمد کے منتظر رہے اور ہر دو وقت صبح ۷؍بجے بارہ بجے دوپہر تک ونیز ۵؍بجے سے ۷؍بجے شام تک مجلس عامہ میں جس میں عموماً معززین اسلام وعلماء کرام صدہا موجود ہوتے تھے۔ مرزاقادیانی کے عقائد کی تردید فرماتے رہے۔ مگر مرزاقادیانی لاہور نہ آئے۔ مورخہ ۲۴؍اگست سے ۲۶؍اگست کی شام تک انتظار کر کے جملہ سرکردگان اہل اسلام کی رائے سے تجویز ہوا کہ صبح مورخہ ۲۷؍اگست ۱۹۰۰ء کو مسجد شاہی واقع لاہور میں ایک عام جلسہ منعقد کیا جائے اور اس میں جو کاروائی من اولہ الیٰ آخرہ دربارہ مباحثہ ومناظرہ مولانا المکرم حضرت پیر مہر علی شاہ صاحبؒ ودیگر علماء عظام وصوفیائے کرام اور مرزاقادیانی کے مابین ہوئے ہیں۔ ضبط تحریر میں لاکر پڑھی اور عوام الناس کو سنائی جائے اور آئندہ کے واسطے مرزائی حرکات کے متعلق مناسب تدابیر سوچی جاویں اور نیز جو صاحبان دور دراز مقامات سے تشریف لائے ہیں۔ ان کا شکریہ بھی ادا کیا جائے۔ باوجودیکہ یہ تدبیر نہایت تنگ وقت پر سوچی گئی تھی اور رات کے آٹھ نو بجے ایک معمولی منادی کے ذریعہ سے شہر میں اطلاع د ی گئی تھی تاہم تقریباً آٹھ دس ہزار آدمی مسجد مذکور الصدر میں جمع ہو گئے۔ جناب پیر مہر علی شاہ صاحبؒ ودیگر مشائخ کرام وعلمائے عظام ساڑھے چھ بجے صبح کو تشریف لائے اور کارروائی جلسہ شروع ہوئی۔ وہو ہذا!
۱… سب سے اوّل مولوی محمد علی صاحب نے دربارہ عقائد مرزاقادیانی وعظ فرمایا کہ یہ اس کے عقائد ہیں جو صریحاً مخالف قرآن کریم وسنت واجماع امت ہیں۔