پیروی کرنے اور بربنا اس کی خاموشی اختیار کرنے میں جب آمدنی اور چندہ پر ایک معتدبہ اثر پڑا اور الہامی یاقوتیوں کی تیاری میں فرق آیا اور پرانے رفیق منشی الٰہی بخش ملہم، منشی عبدالحق اکاؤنٹنٹ، حافظ محمد یوسف ضلع دار نہر، ڈپٹی فتح علی شاہ اور دیگر اچھے اچھے پیرو پھر گئے تو مرزاقادیانی کو ضرورت نفس نے مجبور کیا کہ پھر وہی پرانی طرز اختیار کر لی تب اشتہار، منارۃ المسیح، معراج یوسفی، معیار الاخیار، نکالے۔ مگر اس سے بھی مطلب برآری نہ ہوئی تو سوچ کر حضرت پیر مہر علی شاہؒ سجادہ نشین گولڑہ شریف اور دیگر ۸۶معزز علماء کرام وصوفیائے عظام کو بالخصوص اور باقی تمام علماء وصوفیاء پنجاب ہند کو بالعموم مباحثہ کے لئے مقام لاہور بمقابلہ خود دعوت دی اور ان الہامات سے کام لیا۔ جن کے عدم شیوع کی نسبت وہ اقرار نامہ مذکور الصدر میں اقرار کر چکا تھا اور یہ چاہا کہ پیر صاحبؒ موصوف میرے مقابلہ میں مباحثہ نہ تقریری وتحریری (تفسیر القرآن) کریں اور اپنے الہام ہائے متعددہ سے جتایا کہ پیر صاحبؒ ایسے مباحثہ کرنے میں بالکل ناکام رہیں گے۔ بلکہ یہاں تک تھا کہ وہ اس مباحثہ کے واسطے لاہور تک بھی نہیں آئیں گے اور اگر ایسا کریں گے تو میرا غالب ہونا متصور نہ ہوگا ۔ چنانچہ ایک جگہ لکھا ہے کہ: ’’میں مکرر لکھتا ہوں کہ میرا غالب رہنا اس صورت میں متصور ہوگا کہ جب کہ پیر مہر علی شاہ صاحبؒ بجز ایک دلیل اور قابل شرم اور رکیک عبارت اور لغو تحریر کے کچھ بھی لکھ نہ سکیں اور ایسی تحریر کریں جس پر اہل علم تھوکیں اور نفرین کریں۔ کیونکہ میں نے خدا سے یہی دعا کی ہے کہ وہ ایسا ہی کرے اور میں جانتا ہوں کہ وہ ایسا ہی کرے گا اور اگر پیر مہر علی شاہ صاحبؒ بھی اپنے تئیں مومن مستجاب الدعوات جانتے ہیں تو وہ بھی ایسی ہی دعا کریں اور یاد رہے کہ خداتعالیٰ ان کی دعا ہرگز قبول نہیں کرے گا۔ کیونکہ وہ خداتعالیٰ کے امور مرسل کے دشمن ہیں۔ اس لئے آسمان پر ان کی عزت نہیں۔‘‘
گویہ اشتہار سخت بے ادبانہ اور ناقابل خطاب اور صریحاً خلاف شرائط اقرار نامہ محررہ ومذکورہ کے تھا۔ جو کہ مرزاقادیانی نے اس خیال پر شائع کیا تھا کہ علماء ہندوستان وغیرہ تو مجھے فتویٰ کفر دے چکے ہیں اور پیر صاحبؒ کبھی میرے مقابلہ میں آنے کی پرواہ نہیں کریں گے۔ کیونکہ (صوفیا بحث مباحثہ سے کنارہ کش رہتے ہیں اور اپنا وقت ایسے جھگڑوں میں ضائع نہیں کرنا چاہتے ہیں) پس نہ تو مقابلہ ہوگا اور نہ بحث بلکہ یونہی مفت کی شہرت سے میرا کام بن جائے گا۔ مگر دقت یہ واقع ہوئی کہ پیر صاحبؒ موصوف بنظر اس کے کہ مرزاقادیانی کو عوام الناس میں جھوٹی شیخی بگھارنے کا موقع نہ ملے بالمقابل اشتہار کے ذریعہ سے بوجہ ہمدردی اسلام مباحثہ کے لئے آمادہ