صاحبان! ابتدائے زمانہ اسلام سے آج تک (ہر قرن اور ہر زمانہ میں) اس قدر اولیاء کرام گذرے ہیں۔ جس کا شمار ناممکن ہے۔ لیکن کسی نے ظلی یا بروزی نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔ مثال کے طور پر حضرت خواجہ سیف الدین باخرزی کا اسم گرامی پیش کرتا ہوں کہ جن کی صحبت سے تاتار کے بادشاہ تک مشرف باسلام ہوگئے۔ تاتار کے ہاتھ سے جو مسلمانوں کو اذیتیں پہنچا کرتی ہیں۔ وہ کس سے مخفی ہیں؟ بڑے بڑے حکمران تاتاریوں کے سامنے کھڑے نہ ہوئے۔ تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ حضرت خواجہ معین الدین اجمیریؒ کے حالات کس سے پوشیدہ ہیں؟ کہ انہوں نے ہندوستان میں کس قدر اسلام پھیلایا۔ راجوں تک کو مسلمان کیا۔ لیکن یہ دعویٰ نہ کیا اور ہمیشہ خاکسار بنے رہے۔ علماء میں سے حضرت غزالیؒ کو لیجئے کہ کس قدر شان والے تھے۔ جب نکلتے تو دائیں بائیں ۳،۴ سو شاگرد ہوا کرتے تھے۔
ایک دفعہ باہر سے ایک عالم آئے اور ان کے استقبال ودیدار کے لئے ہزاروں لوگ جمع ہوگئے۔ خلیفہ ہارون رشید کی بی بی (بادشاہ کی بیگم) نے اپنے محل کے جھروکہ سے دیکھا اور حیران رہ گئی۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ خراسان کا ایک عالم آیا ہے۔ جس کے لئے بچے بوڑھے دوڑے جارہے ہیں۔ بولی اﷲ! یہ وہ شخص ہے جو ان پر حکومت کرتا ہے۔ ہاں اگر نبوت امت کے لئے ضروری تھی۔ تو کیا تیرہ صدیاں بغیر نبی کے ہی گذر گئیں اور ایسے ایسے جلیل القدر لوگوں سے ہی کوئی بھی قابل نبوت نہ سمجھا گیا۔ قرن اوّل سے آج تک سب کا عقیدہ یہی رہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اٹھائے گئے ہیں اور پھر نازل ہوںگے۔ کیا اس عقیدہ والے سب کے سب کافر ہوئے۔ اس کے بعد فرمایا کہ ۳سال سے جماعت دیوبند اور قادیان میں اشتہار کا سلسلہ جاری ہے۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ کسی ایک بات کا جواب نہیں دیا گیا۔ اس کے بعد کچھ مولانا عبدالسمیع کا ذکر کیا اور فرمایا کہ ہم سب کو صحابہ کرامؓ کے طریق وراستہ پر چلنا چاہئے۔ اس کے بعد صاحب تعلیم دینیات کے لئے ایک اسلامی مدرسہ کی ضرورت ظاہر کی۔ سب نے اس کی تائید کی اور بقدر امکان امداد دینے اور امداد بہم پہنچانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اس کے بعد نہایت خیر وخوبی کے ساتھ قریب ۳؍بجے جلسہ برخاست ہوا اور ۳،۴بجے کے درمیان علماء کا قافلہ قادیان سے روانہ ہوکر قریب ۶بجے شام بٹالہ پہنچا۔ شہر سے باہر ینگ نیز مسلم ایسوسی ایشن نے رضاکاران خلافت کے جتھے شہر سے باہر استقبال کے لئے نہایت عمدہ انتظام کیا ہوا تھا۔ اہالی ٔ بٹالہ کی خواہش اور اصرار پر آج رات بھی بٹالہ میں علماء رونق افروز رہے اور اپنی تقاریر ومواعظ سے بٹالہ والوں کو مستفید کیا اور اگلے روز امرتسر کی طرف مع الخیر روانہ ہوئے۔