علیہ السلام ابھی زندہ ہیں۔ حضرتﷺ مدینہ میں مدفون ہیں۔ حضور کا ارشاد ہے کہ میرے ساتھ مکان میں چار قبریں ہوںگی۔ جو لوگ حج کو گئے ہیں روضۂ اطہر کی جالیوں سے انہوں نے دیکھا ہوگا کہ مقبرۂ مبارک میں ۳قبریں موجود ہیں اور حضورﷺ کے ارشاد کے مطا بق حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے درمیان ایک قر کی جگہ ہنوز خالی ہے۔
قتل مسیح کے متعلق کہا کہ فعل قتل کا تعلق جسم سے ہے نہ کہ روح سے اور خدا کہتا ہے۔ ’’ماقتلوہ وماصلبوہ‘‘ یہود ان کو قتل نہیں کر سکے اور صلب بھی نہیں کر سکے۔ بلکہ اپنی طرف اٹھا لیا۔ مرزاقادیانی بل رفع اﷲ کی تقریر کرتے ہوئے (ازالہ اوہام ص۲۶۷، خزائن ج۳ ص۲۳۵) میں ان کی روح کا اٹھایا جانا مانتے ہیں اور ہم روح مع الجسم، اس کا آسان فیصلہ اس پر غور کرنے سے ہوسکتا ہے کہ یہود کا دعویٰ کیا تھا۔ روح کو قتل کرنے کا یا جسم کو؟
امام بیہقی کی ’’کتاب الاسمائ‘‘ میں ہے۔ ’’کیف انتم اذانزل ابن مریم من السمائ‘‘ اے میری امت کے لوگو۔ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تم میں عیسیٰ بن مریم علیہما السلام اترے گا۔ گویا نازل ہونے سے آسمان پے چڑھنا خود ثابت ہے۔
باریک نکتہ
’’بل رفعہ اﷲ‘‘ پر تقریر کرتے ہوئے آپ نے علمی نکتے بیان کئے۔ کہا کہ اس میں بل نفی کرتا ہے اس فعل کی جو اس کے ماقبل ہے۔ مثلاً کوئی کہے زید نے بکر کو مارا نہیں۔ بلکہ روٹی کھلائی۔ روٹی کھلائی اور مارنا دو امر ہیں۔ اس کا مذہب یہ ہے کہ بل مارنے کی نفی کرتا ہے اور روٹی کھلانے کی تصدیق کرتا ہے۔ جیسا ’’قالوا تخذ الرحمن ولدا۔ بل عباد مکرمون نیز ام یقولون بہ جنۃ بل جاء بالحق‘‘ نبی کی نسبت لوگ کہتے ہیں کہ اس کو سودا ہوگیا۔ خدا فرماتا ہے ہر گز نہیں بلکہ وہ حق لے کر آیا ہے۔ جو حق لے کر آئے مجنون نہیں ہوسکتا۔ ’’بل‘‘ نے جنون کی نفی کر کے بالحق کو ثابت کیا ہے۔ اب اچھی طرح سمجھو کہ بل رفعہ اﷲ بعد میں ہے اور ماقتلوہ وما صلبوہ پہلے ہے۔
مرزاقادیانی نے ازالہ میں جمع کے صیغے عزت کی موت کے کئے ہیں۔ دوسری جگہ (ص۲۶۷، خزائن ج۳ ص۲۳۵) روح کا اٹھانا لکھا ہے۔ دونوں جمع نہیں ہوسکتیں۔ ہاں یہ اعتراض بھی ہوا کرتا ہے کہ دوسرے نبیوں کو خدا نے زمین پر بچایا تو ان کو آسمان پر کیوں اٹھایا۔
جواب خدا کے فیوض ہر انسان پر ہر مطابق اس کے مادہ فطری کے ہوتے ہیں۔ مثلاً