اور سنئے جب یہاں کمیشن آئی تو ’’اخبار بدر‘‘ نے چھاپا کہ طاعون چوہڑوں میں ہے اوروں میں نہیں ؎
عالم بمنت یکطرف خسرو بیچارہ یک طرف
وہ خدا تو اپنی حکمتیں خوب جانتا ہے
سنو! مرزاقادیانی کا چچا زاد بھائی مرزانظام الدین مجھے امرتسر میں ملا۔ میرے پوچھنے پر اس نے کہا کہ: ’’جب مرزاقادیانی نے کہا کہ قادیان میں طاعون نہیں پڑے گا تو ہم نے اسی وقت سمجھ لیا کہ ضرور آئے گا۔‘‘ اس کو بھی چھوڑئیے۔ ملاحظہ فرمائیے مرزاقادیانی (حقیقت الوحی ص۸۴، خزائن ج۲۲ ص) پر لکھتے ہیں۔ ’’پھر طاعون کے دنوں میں جب کہ قادیان میں طاعون زور پر تھا۔ میرا شریف احمد لڑکا بیمار ہوا۔‘‘
اس وقت مدرسہ بند کر دیا گیا۔ آپ چھت پر مسافر سے ملاقات کرتے اور ملاقات سے پہلے دریافت کر لیتے کہ وہ طاعونی مقام سے تو نہیں آیا۔ اگر طاعونی مقام کا ہوتا تو ملاقات نہ کرتے۔
ایک بزرگ نے شہادت دی کہ میں ایک طاعون زدہ مقام سے قادیان کو دارالامان سمجھ کر بچاؤ کی خاطر آیا۔ مگر یہاں آکر سارا کنبہ لقمۂ اجل کرا بیٹھا۔ فقط ایک بچہ رہا۔
مولانا صاحب نے سلسلۂ تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا۔ مرزاقادیانی کا قول ہے۔ ایک دفعہ کسی قدر شدت کے ساتھ طاعون پڑا۔ ایک دفعہ طاعون کے زور کے دنوں میں جب کہ قادیان میں زور تھا؟ اﷲ اکبر! کسی قدر شدت، اور قادیان میں طاعون کے زور کا اقرار یاد رکھنا۔ مرزاقادیانی بڑے دور اندیش تھے۔ فرماتے ہیں الہام میں قادیان کا نام نہیں۔ ’’انہ اوی القریہ‘‘ ہے۔ قریہ قرار دسے نکلا ہے۔ اس کے معنی ہیں دسترخوان پر مل کر کھانے والے لیکن پہلے میں بتا آیا ہوں کہ ’’الحکم‘‘ میں فرماتے ہیں کہ خدا نے سب کو اپنے سایۂ شفاعت میں لے لیا۔ اب اس کا کیا جواب ہے؟ مرزاقادیانی کی اور وحی ملاحظہ ہو کہ میں گھر کے رہنے والوں کی محافظت کروں گا۔ گھر سے مراد کوئی چاردیواری نہیں۔ بلکہ میری مریدی میں داخل ہونے والے ہیں۔ خواہ وہ کہیں ہوں۔
احمدی دوستو! بتاؤ بدر کا ایڈیٹر محمد افضل، محمد یاسین سہارنپوری، قاضی میر حسین بھیروی کا لڑکا کس مرض سے مرے؟ کہو طاعون سے مرے۔ واقعات صحیحہ موجود ہیں۔ سنو! طاعون ہوا۔