رائفل پولیس نے برآمد کی ہے۔ اگر حکومت ربوہ اور قادیان اسٹیٹوں کی اچھی طرح دیکھ بھال کرے تو بیشمار اور راز بھی ظاہر ہوسکتے ہیں۔ خلیفۂ قادیان ہر اس فرد کو بغاوت کا حق دیتے ہیں۔ جس نے دل سے اور عمل سے حکومت وقت کی اطاعت نہ کی ہو۔ ایک دفعہ کسی نے خلیفۂ قادیان سے دریافت کیا کہ جس ملک کے لوگوں نے کسی حکومت کی اطاعت نہ کی ہو تو کیا انہیں حق ہے کہ وہ اس حکومت کا مقابلہ کرتے رہیں تو ارشاد ہوا۔
’’اگر کسی قوم کا ایک فرد بھی ایسا باقی رہتا ہے جس نے اطاعت نہیں کی نہ عمل سے نہ زبان سے تو وہ آزاد ہے اور دوسرے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرکے مقابلہ کر سکتا ہے۔‘‘
(الفضل قادیان مورخہ ۱۹؍ستمبر ۱۹۳۴ئ) پھر فرماتے ہیں: ’’اگر تبلیغ کے لئے کسی قسم کی رکاوٹ پیدا کی جائے تو ہم یا تو اس ملک سے نکل جائیں گے۔ یا پھر اگر اﷲتعالیٰ اجازت دے تو پھر ایسی حکومت سے لڑیں گے۔‘‘
(الفضل قادیان مورخہ ۱۳؍نومبر ۱۹۵۳ئ)
پھر فرمایا: ’’شاید کابل کے لئے کسی وقت جہاد کرنا پڑ جائے۔‘‘
(الفضل قادیان مورخہ ۲۷؍فروری ۱۹۲۲ئ)
’’جماعت ایک ایسے مقام پر پہنچ چکی ہے کہ بعض حکومتیں بھی اس ڈر کی نگاہ سے دیکھنے لگی ہیں اور قومیں بھی اسے ڈر کی نگاہ سے دیکھنے لگی ہیں۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۲۰؍اپریل ۱۹۳۸ئ)
انتشار پیدا کر کے ملک پر قبضہ کرنا
اس اقتباسات اور حوالہ جات سے یہ بالکل واضح ہوتا ہے کہ خلیفۂ ربوہ اپنی جماعت کے ذہنوں میں اسی سیاسی جنون کی پرورش کر رہے ہیں۔ جو ان کے اپنے ذہن میں سمایا ہوا ہے اور اس تاک میں بیٹھے ہوئے ہیں کہ کب پاکستان میں افتراق وانتشار کی آگ بھڑکے اور اس سے فائدہ اٹھا کر ملک کے حکمران بن جائیں۔
خلیفۂ قادیان فرماتے ہیں: ’’قبولیت کی رو چلانے کے لئے طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۱۱؍جولائی ۱۹۳۶ئ)
ان کا اپنا ارشاد ہے کہ: ’’پنجاب جنگی صوبہ کہلاتا ہے۔ شاید اس کے اتنے یہ معنی نہیں کہ ہمارے صوبے کے لوگ فوج میں زیادہ داخل ہوتے ہیں۔ جس کے یہ معنی ہیں کہ ہمارے صوبہ کے لوگ دلیل کے محتاج نہیں بلکہ سونٹے کے محتاج ہیں۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۲۷؍جولائی ۱۹۳۶ئ)