کی کیا کیفیت ہے؟ اس بارے میں کچھ کہنا ان سطور کے راقم کے لئے ممکن نہیں۔ البتہ اپنی اس پریشانی کا اشارۃً اظہار ناگزیر سا محسوس ہوتا ہے کہ جب مرزاغلام احمد قادیانی اور قادیانی امت کے دوسرے ذمہ دار اصحاب کی ایسی تحریریں اور اقدامات زیربحث آتے ہیں۔ جن میں ان کی صفت دجالیت کا بھرپور مظاہرہ ہوتا ہے اور اسلام کو مسخ کرنے اور اس سے بھی زیادہ جذبات کو بھڑکانے والا ان کا یہ رویہ سامنے آتاہے کہ انہوں نے اور تو اور، سید الاولین والآخرین، امام الانبیاء وخاتم المرسلین محمد بن عبداﷲ فداہ ابی وامی ونفسی ومالی وولدیﷺ الف الف صلوات کی توہین کا ارتکاب کیا ہے تو واقعہ یہ ہے کہ ان کے نام کو قلم سے کاغذ پر لکھنے کے لمحات میں جذبات اس کے متحمل ہی نہیں ہوتے کہ ان کا نام کسی احترام کے اسلوب سے لیا جائے۔ لیکن جونہی اس فتنے کے دام میں پھنسنے والے حضرات کو پھر سے رحمت عالمﷺ کے امتی بنانے کی آرزو مچلتی اور یہ فریضہ شدت پذیر ہوتا ہے تو اسلوب اور لب ولہجہ میں فوری تبدیلی رونما ہوتی ہے اور یہ تبدیلی بسا اوقات سیما بیت کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ چنانچہ اس کے نمونے آپ اپنے زیردست اس کتاب کے متعدد مقامات پر دیکھیں گے اور بسا اوقات ایک ہی پیراگراف میں اس اضطراب کی جھلکیاں مشاہدے میں آئیں گی۔
لیکن یہ تو اسلوب کی بات تھی اور اس کا تذکرہ ایک تو اپنی کیفیت سے مجبوری کے باعث، دوسرے قادیانی اور مسلمان دونوں سے بطور معذرت، اسلامی اخوان کو شکوہ وہاں ہوگا۔ جہاں مرزاغلام احمد قادیانی کے نام کے ساتھ تکریم کا کوئی لفظ یا اسلوب ملاحظہ فرمائیں گے اور قادیانی احباب جب انداز بیان میں شدت محسوس کریں گے تو کبیدہ خاطر ہوں گے۔ بایں ہمہ پوری کتاب کے ناقدانہ مطالعہ کے بعد بھی انہیں کسی ایک جگہ بھی اس سب وشتم کا سراغ انشاء اﷲ العزیز نہیں ملے گا۔ جو ان کے پیشوا کا روزمرہ تھا۔
اسلوب کے علاوہ دوسری بات جس کی جانب ہمیں قارئین محترم اور بالخصوص قادیانی حضرات کو متوجہ کرنا ہے وہ یہ ہے کہ قادیانیت پر تنقید اور اسے کفر قرار دینے کے جس عنوان کو یہاں زیر بحث لایا گیا ہے۔ ہماری یہ معمولی سی کاوش قادیانیوں سے کسی بھی ذاتی یا گروہی مخالفت کا نتیجہ ہرگز نہیں۔ اﷲ علیم بذات الصدوور کو گواہ کر کے ہم یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہماری یہ ناچیز سعی خالصتاً اس عقیدے، نظریے اور جذبے کا ایمانی مظہر ہے کہ بقول عارف باﷲ، شیخ الاسلام، امام ابن تیمیہؒ۔ نبوت ایک ایسا عظیم المرتبت منصب ہے کہ اس سے انسانوں کے دو انتہائی طبقے کھل