ساتھ ملنا جلنا اور بات کرنا اس طرح منع ہے جس طرح مصری عبدالرحمن صاحب وغیرہ مخرجین کے ساتھ۔‘‘ (مورخہ ۶؍اگست ۱۹۳۷ء الفضل)
’’چونکہ مستری جمال دین صاحب سکنہ سرگودھا نے ایسے شخص کے ساتھ اپنی لڑکی کی شادی باوجود ممانعت کے کر دی ہے۔ جو سلسلہ احمدیہ سے تعلقات منقطع کر چکا ہے۔ لہٰذا احباب جماعت کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ انہیں حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے جماعت احمدیہ سے خارج کر دیا گیا ہے۔ جماعت کے دوست کلی مقاطعہ رکھیں۔‘‘ (مورخہ ۱۱؍دسمبر ۱۹۳۰ء الفضل)
’’میں چوہدری عبداللطیف کو اس شرط پر معاف کرنے کے لئے تیار ہوں کہ آئندہ اس کے مکان واقع نسبت روڈ پر وہ افراد نہ آئیں۔ جن کا نام اخبار میں چھپ چکا ہے… چوہدری عبداللطیف نے یقین دلایا کہ میں ذمہ لیتا ہوں کہ وہ آئندہ اس جگہ پر نہیں آئیں گے اور میں نے اس کو کہہ دیا ہے کہ جماعت لاہور اس کی نگرانی کرے گی اور اگر اس نے پھر ان لوگوں سے تعلق رکھا یا اپنے مکان پر آنے دیا تو پھر اس کی معافی کو منسوخ کر دیا جائے گا۔‘‘ (مورخہ ۲۲؍نومبر ۱۹۵۶ء الفضل)
بہن کا بہن سے تعلق نہ رکھنا
اس کے بعد خلیفہ صاحب نے امتہ السلام اہلیہ ڈاکٹر علی اسلم صاحب کا سوشل بائیکاٹ کرتے ہوئے اپنی بہو کو یہ دھمکی دی۔ ’’اب اگر تنویر بیگم جو میری بہو ہے۔ ’’الفضل‘‘ میں اعلان نہ کرے کہ میرا اپنی بہن سے کوئی تعلق نہیں تو میں اس کے متعلق ’’الفضل‘‘ میں اعلان کرنے پر مجبور ہوں گا کہ لجنہ (قادیانی عورتوں کی انجمن) اس کو کوئی کام سپرد نہ کرے اور میرے خاندان کے وہ افراد جو مجھ سے تعلق رکھنا چاہتے ہیں۔ اس سے تعلق نہ رکھیں۔‘‘ (مورخہ ۲۱؍جون ۱۹۵۷ء الفضل)
بعد ازاں تنویر السلام نے خلیفہ صاحب کی دھمکی سے خائف ہو کر اپنی بہن کے خلاف یہ اعلان ’’الفضل‘‘ میں شائع کرادیا۔
’’ڈاکٹر سید علی اسلم صاحب (حال ساکن نیروبی) اور سیدہ امتہ السلام، بیگم ڈاکٹر علی اسلم نے جماعت کے نظام کو توڑنے کی وجہ سے میرے رشتہ کو بھی توڑ دیا ہے۔ لہٰذا آئندہ ان سے میرا کسی قسم کا کوئی تعلق نہ ہوگا۔‘‘ (مورخہ ۲۵؍جون ۱۹۵۷ء الفضل)