جعلی اقتدار میں اپنے مخالفین کو ہر قسم کی اذیت اور خوفناک قتل سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ الہاموں اور کشوفوں کا سہارا صرف ایک عیاری اور مکاری ہے۔ پھر ناواجب طور پر اندھا دھند ریزولیوشن پاس کروا کر مقدس پاکباز بننے کی ناپاک کوشش ان کا پرانا وطیرہ ہے۔
جماعت کے ذی ہوش طبقہ کو چاہئے تو یہ تھا کہ وہی اس ناواجب طریق کو علیٰ الاعلان ناپسندیدگی کا اظہار کرتی۔ لیکن یہاں بھی معاملہ برعکس ہوا۔ گندم کے ساتھ جو بھی پس گیا۔ اس سیلابی ریزولیوشن کا خلیفہ صاحب کو یہ فائدہ ضرور ہوگیا کہ مریدوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اگر ہم اپنی آنکھوں سے خلیفہ کو زنا کرتے دیکھ لیں تو ہم یہ کہیں گے کہ ہماری آنکھوں کا قصور ہے۔
جب مریدوں کی طرف سے خلیفہ صاحب کو چھٹی مل گئی تو پھر خلیفہ صاحب بڑی جرأت سے یوں کہتے ہیں۔ ’’اگر مجھ پر سچے اعتراض بھی کروگے تو جہنم کی آگ میں جاؤ گے۔‘‘ پھر بعض لوگوں نے بذریعہ اشتہار وخط مطالبہ کیا کہ آپ بدکرداری کے متعلق جس طریق پر چاہیں فیصلہ کرلیں۔ اس مطالبہ پر فوراً ایک خط کے جواب میں خلیفہ صاحب بڑی دریدہ دہنی سے فرماتے ہیں۔ ’’مجھے ایک شخص نے خط لکھا ہے وہ لکھتا ہے کہ میرے خلاف لڑکے اور لڑکیوں کے علاوہ میری بھی گواہی گزاردیں گے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میری گواہی سے مراد میری کوئی تحریر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہو بھی تو خلفاء سابقین سے میری ایک اور مماثلت ثابت ہوگی۔‘‘ نعوذ باﷲ! (الفضل) اس وقت اس پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ صرف یہی کہہ دینا کافی ہوگا کہ مسلمان کی غیرت کو ایک کھلا چیلنج خلیفہ صاحب نے دیا ہے۔
علاوہ ازیں کبھی ’’الفضل‘‘ میں یوں گوہر افشانی ہوتی ہے۔ ’’زنا کرنا جرم نہیں۔ اس کی تشہیر جرم ہے۔‘‘ (العیاذ باﷲ) اس سے یہ ثابت شدہ امر ہے کہ خلیفہ صاحب ان افعال شنیعہ کے مرتکب تو ہیں۔ مگر اپنی صبر آزما گندگیوں کو ٹالنے کے لئے ناپاک کوشش کرتے ہیں۔ آپ نے خلیفہ صاحب کی سیلابی تقاریروں سے متأثر ہوکر سب کچھ کیا۔ مالی قربانیان کیں۔ بکرے چھترے ہضم ہوئے۔ جماعت کے مخلص دوستوں سے تعلقات منقطع کئے۔ کمہاروں اور جلاہوں اور مقرر کردہ تنخواہ داروں نے اپنی پیٹ پوجا کے لئے نمک حلالی کی۔ خلیفہ صاحب کے عیبوں کو نہ بکرے چھترے بچا سکے۔ نہ ان کا اپنا الہام اور رؤیا آڑے ہاتھ آیا۔ بلکہ ان پر زنا کا الزام اب بھی بدستور ہے۔ اس کے فیصلے کے تین ہی طریق ہوسکتے ہیں۔