واقعات اور حالات سے ثابت شدہ امر ہے کہ خلیفہ صاحب مذہب کے پردے میں حکومت پر قبضہ کرنے کے خواہش مند ہیں اور ’’ربوہ کا سٹیٹ بینک‘‘ ان تمام اداروں کے چلانے کے لئے خرچ اخراجات کا ذمہ دار ہے۔ حکومت کے لئے غور وفکر کی ضرورت ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ وقتی مصلحتیں کارفرمانہ ہوتیں تو یقینا اس بربریت کا مظاہرہ کبھی نہ ہوتا۔ اس وقت سفید فام آقاؤں نے ان کو آلۂ کار بنا کر کام لیتا رہا۔ اس کام کی طفیل رو رعایت ملحوظ تھی۔ جس کو چاہے روز روشن میں قتل کر دیا۔ جس کا مکان چاہا نذر آتش کر دیا۔ جس کو چاہا شہر بدر کر دیا۔ اب وہ سفید فام آقا تو چلے گئے۔ لیکن جب ایک منہ کو خون کی چاٹ لگ جائے تو وہ عادت چھوڑنی مشکل ہو جاتی ہے۔
خلیفہ ربوہ نے اپنے نظریات کو نہ بدلا اور بدستور الہامی اور کشوف رویہ کا سہارا لے کر رنگین اور سنگین جرائم کے مرتکب ہوتے رہے۔ اگر حکومت مصلحتوں سے پہلو تہی نہ کرتی، نہ یہ جرائم ہوتے۔ نہ حکومتی خواب کے لئے الہام وکشوف کا سہارا لیتے۔ اگر حکومت اپنے قانون کی برتری اور عظمت چاہتی ہے تو ربوہ کے سنگین جرائم کا علم ہونا۔ کوئی مشکل امر نہیں۔ خلیفہ صاحب کو پولیس پوسٹ میں بلانا مانع ہو تو گھر پر دریافت کرنے سے پراسرار راز کھلنے مشکل ہیں۔ پھر عام طور پر چور ڈاکو بھی اخلاقی طور سے نہیں بتایا کرتے۔ اس لئے میں حکومت سے درخواست کروں گا۔ ان پراسرار راز معلوم کرنے کے لئے ان کو اپر کلاس (Upper Class) دی جاوے۔ یعنی C.I.A سٹاف کے حوالہ کیا جائے۔ صحیح قاعدہ کے مطابق اگر کام کیاگیا تو برسوں کے پراسرار راز منظر عام پر آجائیں گے اور تمام سربستہ راز افشاء ہو کر عوام الناس اور حکومت کے لئے بہتر نتائج برآمد ہوںگے۔ بہرحال اس کتابچہ میں تمام حقائق سامنے لائے گئے ہیں۔ اب حکومت کا فرض ہے صم بکم رہے۔ یا نظر انداز کرے۔
نکوکاری کے پردے میں سیہ کاری کا حیلہ ہے۔ گو اس کتابچہ کا تمام موضوع حکومتی خوابوں سے تعلق رکھتا ہے۔ مگر اختصار کے ساتھ جماعت سے کچھ کہنا ضروری خیال کرتاہوں۔
جیسا کہ آپ کو علم ہے کہ مقدس پاکباز مصلح دوراں خلیفہ پر متواتر اور مسلسل بدکرداری، بدچلنی کے الزام لگتے آئے ہیں۔ لیکن وہ اپنے تقدس کے جعلی اقتدار کے ذریعہ اپنے مخالفین کو مختلف طریق سے مرتد، منافق، دشنام طرازی کر کے جماعت کے ذہنوں کو کسی دوسری طرف منتقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اخلاق سوز گالیاں دینا اور بات کو گول مول کر کے ٹالنا خلیفہ صاحب کا طرۂ امتیاز ہے۔ اگر یہاں تک ہی بات ہوتی تو معاملہ صاف ہو سکتا تھا۔ مگر آپ نے تقدس کے