بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا!
قادیانی گروہ کی ایک کتاب (جس کا نام بمضمون ’’برعکس نہند نام زنگی کافور‘‘، ’’انوار اﷲ‘‘ رکھا گیا ہے اور وہ حال ہی میں بمطبع عزیز دکن واقع حیدرآباد دکن طبع ہوکر شائع ہوئی ہے) دیکھی گئی۔ افسوس کہ اس کے بے باک مؤلف نے عالی جناب مولانا المولوی الحاج الحافظ محمد انوار اﷲ خان صاحب بہادر عم فیضہ استاد حضرت بندگان عالی متعالی کی نسبت بہت کچھ گستاخانہ کلمات لکھے ہیں۔ مگر ظاہر ہے کہ آفتاب پر خاک اڑانا گویا خود ہی کو خاک میں ملانا ہے۔ اسی کتاب کے ضمیمہ میں مؤلف نے حضرت مولانا المولوی الحافظ الحاج الواعظ القاری سید شاہ محمد عمر صاحب قادری کو مخاطب کر کے یہ بھی لکھا ہے کہ (جس طرح اربعین میں آپ کو حضرت اقدس نے مباہلہ کے لئے بلایا ہے۔ کیا آپ نے اس کو منظور کر لیا ہے۔ بائیں شائیں ادھر ادھر کی گپوں میں اس بلا کو اپنے سر سے ٹالا ہوگا۔ آپ نے خط رجسٹری میں کیا لکھا تھا۔ ذرہ چھپوائیے اور سنائیے ہم بھی تو سنیں) اس عبارت کے دیکھنے سے بہت سخت تعجب ہوا۔ کیونکہ چند ہی سال ہوئے کہ قادیانیوں کی درخواست مطبوعہ ۲۷؍جون ۱۹۰۰ء جو منجانب مولوی محمد علی صاحب ایم۔اے، ایل۔ایل۔بی سکرٹری مجلس قادیان اور نیز ان کے شرکاء ڈیڑھ سو اشخاص کے نام سے شائع ہوئی تھی اور اس میں انہوں نے جمیع علماء ومشائخین، ہندو دکن کو مخاطب کر کے ایک خاص امر (ازالہ مرض) کو تائید آسمانی قرار دے کر اس کے مقابلہ کے لئے بلایا تھا۔ اس کا کافی جواب منجانب اہل سنت حیدرآباد دکن صانہا اﷲ عن الشروالفتن بتاریخ مورخہ ۱۳؍اگست ۱۹۰۰ء مطابق ۱۶؍ربیع الثانی ۱۳۱۸ھ دیاگیا اور بذریعہ رجسٹری انگریزی نمبر (۷۵۵) جس کی رسید ہمارے یہاں موجود ہے۔ سیکرٹری مذکور کی خدمت میں بھیجا گیا تھا اور اس میں خود ان کے پیشرو مرزاغلام احمد قادیانی کو مباہلہ مسنونہ کی دعوت دی گئی تھی اور اس کے آخر میں صاف طور پر یہ بھی لکھاگیا تھا کہ (اس کے جواب کا انتظار۱؎ سلخ جمادی الثانی ۱۳۱۸ھ تک کیا جائے گا۔ درصورت سکوت آپ کا اور آپ کے پیشرو کا مقابلہ سے عاجز اور اپنے دعوے میں کاذب ہونا مسلم ہوگا) باوجود اس کے اس وقت تک جو پانچ ۱؎ جیسا کہ انہوں نے بھی اپنی درخواست مذکور الصدر کے ص۷ میں جواب کے لئے ایک میعاد یعنی لغایت ۱۵؍اگست ۱۹۰۰ء لکھی تھی۔