بھی مدنظر نہیں رکھتے۔ نہ تفسیر کے، تفسیر بالرائے کرتے ہیں۔ نہ علم حدیث کے، لہٰذا صحیح وضعیف میں فرق نہیں کرتے۔ نہ تاریخ کے، لہٰذا غلط روایات بے سند کا سہارا لیتے ہیں۔ نہ اصول مناظرہ کے قواعد وضوابط کی پرواہ کرتے ہیں۔ شتر بے مہار کی طرح چلتے ہیں۔
مناظرہ مشتق من النظیر ہے
مرزائی مبلغ، مبلغ اعظم کی علم ومہارت میں نظیر ہی نہ تھا۔ لہٰذا گھٹیا دلائل دیتا رہا۔ ان کو اظہار صواب مطلوب ہی نہیں ہوتا۔ لہٰذا مناظرہ نہیں۔ بلکہ مکابرہ کرتے ہیں اور مجادلہ میں اتر آتے ہیں۔ یعنی اپنا بڑا پن ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ خفت نہ ہو۔ لہٰذا ان کو تکلف تصنع بناوٹ اور چستی چالاکی مکروفریب سے کام لینے کی از حد ضرورت ہوتی ہے۔ خواہ نہ چلے، نقل میں صحت کا خیال نہیں کرتے۔ غلط حوالے، غلط تراجم، غلط تشریح فرماتے ہیں۔ یہی ان کا معمول ہوتا ہے۔ نہ ان کو پتہ ہوتا ہے کہ مدعی کون ہوتا ہے اور اس کا وظیفہ کیا اور سائل کون اور ہمارا دعویٰ کیا۔ اس پر ہم دلیل دے رہے ہیں یا شبہ وارد کر رہے ہیں۔ مصطلحات میں تعریف کا پتہ، نہ حقیقی کا، نہ اسمی کا، نہ رسمی کا۔ دلیل میں اس کے مقدمات کی صحت وسقم کا خیال ہی نہیں رکھتے۔ منع نقص معارضہ کی تعریف تک سے واقف نہیں ہوتے۔ یہ مولوی احمد علی مرزائی، مبلغ اعظم کی کسی دلیل پر نہ نقض وارد کر سکا نہ معارضہ میں دلیل پیش کر سکا۔ نہ مبلغ اعظم کی کسی دلیل پر کوئی شاہد بیّن پیش کر سکا۔ نہ مبلغ اعظم کی کسی دلیل کے خلاصۃً معارضۃً کوئی دلیل صحیح قائم نہ کر سکا۔ مناظرہ اور بحث کے اجزاء ثلاثہ عبادی اوساط مقاطع کا جاننا اس کی بلا سے، طریق بحث اور اس کی ترتیب طبعی کا کوئی خیال نہ رکھا۔ یہ ہوتے ہیں مرزائی مناظر۔
مسئلہ بنات کا موضوع نباہ نہ سکنے کی وجہ سے اہل البیت کی تعیّن سے عاجز آگیا۔ اس سے گھبرا کر ختم نبوت مگر دلائل وہی ظنیات ضعیف اور کمزور نہ اصول نہ ضوابط صرف خیال اور بے معنی قال مقال۔
ہم اس مناظرہ میں مذہب حقہ شیعہ خیرالبریہ کی صداقت حقانیت اور اس کے مقابلہ میں مرزائیوں کی کمزوریاں جو ظاہر ہوئیں دکھلائیں گے۔
ختم نبوت اس کے ترجمہ وتشریح میں جتنی آیات، احادیث شیعہ کے پاس ہوںگے ان