ہوگیا اور اس کی کوئی چالاکی کام نہ آئی۔ نیز مرزاقادیانی نے اشتہار تبصرہ میں ڈاکٹر عبدالحکیم کے مقابلہ میں لکھا تھا۔ تیری (مرزاقادیانی کی) عمر کو بڑھا دوں گا۔ تاکہ معلوم ہو کہ میں خدا ہوں۔ اس الہام کے صریح معنی یہ ہوتے ہیں کہ مرزاقادیانی کی عمر ڈاکٹر عبدالحکیم سے زیادہ ہوگی۔ لیکن افسوس مرزاقادیانی بصد حسرت ویاس ڈاکٹر صاحب کی زندگی ہی میں مرگیا۔
طرفہ تربات یہ ہے کہ الہام ۲۲؍مئی ۱۹۰۶ء مندرجہ بدر مورخہ ۲۴؍مئی ۱۹۰۶ء میں ہے کہ تیری طرف نور جوانی کی قوتیں (کشتہ جات کی وجہ سے) رد کی جائیں گی اور تیرے پر زمانہ جوانی کا آئے گا۔ یعنی جوانی کی قوتیں دی جائیں گی۔ تاکہ خدمت دین میں ہرج نہ ہو اور اگر تم اے لوگو ہمارے اس نشان سے شک میں ہو تو اس کی نظیر پیش کرو اور تیری بیوی کی طرف بھی تروتازگی واپس کی جائے گی۔ (مگر افسوس میاں بیوی ویسے کے ویسے پھوسڑ رہ کر چل بسے)
اسلام میں زیارت بیت اﷲ سے مشرف ہونا ایک عظیم بزرگی مانی جاتی ہے۔ لیکن مولوی قاضی محمد سلیمان پٹیالوی کی شائد دعا کا اثر ہوا یا خود مرزاقادیانی کی شقاوت ازلی کا دخل ہو کہ مرزاقادیانی کو یہ شرف تمام عمر حاصل نہیں ہوسکا۔ چنانچہ مولوی محمد سلیمان مذکور نے اپنے رسالہ غائت المرام مطبوعہ ۱۸۹۱ء میں لکھا ہے کہ: ’’میری پیشین گوئی ہے کہ زیارت بیت اﷲ مرزاقادیانی کے نصیب میں نہیں ہوگی۔‘‘ (اور واقعی نصیب نہ ہوئی)
(رسالہ نور دین ص۱۷،۷۱) پر ہے کہ: ’’مرزاقادیانی ۱۸۴۰ء میں پیدا ہوا اور ۱۹۰۸ء میں فوت ہوا۔‘‘
(تحفہ شہزادہ ویلز ص۶۲) پر ہے کہ: ’’مرزاقادیانی کی موت ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء میں ہوئی۔‘‘
مرزاقادیانی کی موت کی تاریخ مندرجہ ذیل دو اشعار میں مختلف مضامین میں نظم کی گئی ہے۔
اس کے بیماروں کا ہو گا کیا علاج
کالرہ سے خود مسیحا مر گیا
(۱۳۲۶ھ)
یوں کہا کرتا تھا مر جائیں گے اور
اور تو زندہ ہیں خود ہی مر گیا
(۱۳۲۶ھ)