شیطان اور گمراہ دیو ہے۔ جس کو رشید احمد گنگوہی کہتے ہیں اور وہ کمبخت امروہی کی طرح ہے اور ملعونوں میں سے ہے۔
(انجام آتھم ص۵۵، خزائن ج۱۱ ص ایضاً) پر ہے کہ: ’’مجھ کو خدا نے الہام کیا ہے۔ ’’تلطف بالناس وترحم علیہم‘‘ یعنی لوگوں کے ساتھ لطف اور رحم کے ساتھ پیش آؤ۔‘‘ پھر (ص۶۵) پر ہے کہ: ’’مجھے الہام ہوا ہے۔ ’’یاداؤد عامل بالناس رفقا واحسانا‘‘ یعنی اے داؤد لوگوں کے ساتھ نرمی اور احسان سے پیش آؤ۔‘‘
(براہین احمدیہ ص۸۳) پر ہے کہ: ’’بخدمت جملہ صاحبان یہ بھی عرض ہے کہ یہ کتاب کی تہذیب اور رعایت آداب سے تصنیف کی گئی ہے۔ (گویا مرزاقادیانی کی پہلی تصانیف بدتہذہبی سے لبریز ہیں) اور اس میں کوئی ایسا لفظ نہیں جس میں کسی فرقہ کے بزرگ یا پیشواء کی کسر شان ہو اور خود ہم ایسے الفاظ کو صریحاً یا کنایتاً اختیار کرنا خبث عظیم سمجھتے ہیں اور ایسے امر کے مرتکب کو پرلے درجے کا شریر النفس خیال کرتے ہیں۔‘‘
پھر (براہین احمدیہ ص۸۳، خزائن ج۱ ص۷۱) پر ہے کہ: ’’ہمارا ہر گز یہ مطلب اور مدعا نہیں ہے کہ کسی کے دل کو رنجیدہ کیا جائے۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۲۲۵، خزائن ج۵ ص ایضاً) پر ذیل کا شعر درج ہے ؎
گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو
رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے
(خط بنام پیر مہر علی شاہ مورخہ ۲۰؍جولائی ۱۹۰۶ئ) میں مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ: ’’خدا کی لعنت ہو اس پر جو ہمارا خلاف یا انکار کرے۔‘‘
(الحکم مورخہ ۲۴؍اکتوبر ۱۸۸۹ئ) میں ہے کہ: ’’مرزاقادیانی کا الہام نص صریح ہے اور نص صریح کا منکر کافر ہے۔‘‘
مرزاقادیانی کا (خط مندرجہ الذکر الحکیم نمبر۴ ص۲۳، تذکرہ ص۶۰۷، منقول الفضل مورخہ ۱۵؍جنوری ۱۹۳۵ئ) پر ہے کہ: ’’بہرحال خدا نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچتی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں۔‘‘
خلیفہ اوّل مولوی نورالدین نے (الحکم مورخہ ۱۷؍اگست ۱۹۰۸ئ) میں لکھا ہے کہ ؎
اسم او اسم مبارک ابن مریم مے نہد
آں غلام احمد است ومیرزائے قادیاں