اسلامک ریویو رسالہ کا بالاشتراک ایڈیٹر بن گیا اور ۱۹۶۴ء میں شاہ جہاں مسجد ووکنگ کا سب سے پہلا سنی امام مقرر کیاگیا۔ یہ مسجد برطانیہ میں سب سے پہلی مسجد تھی اور اس زمانہ میں سارے یورپ کے اسلامی مرکز کی حیثیت رکھتی تھی۔ پانچ سال کی امامت کے بعد ۱۹۶۸ء میں مستعفی ہوکر بذریعہ کار قریباً ۴۳ممالک کا تین برس تک دورہ کرتا رہا۔ جن میں زیادہ تر اسلامی ممالک تھے۔ اس دورہ کا اصل مقصد میری ایک دیرینہ خواہش کو پورا کرنا تھا کہ بلا توسط بچشم خود مطالعہ کروں کہ اسلامی دنیا میں عوام الناس کس طرح اسلامی قدروں کو عملی طور پر نبھا رہے ہیں۔ میری ہنگامی اور نزاعی زندگی میں خدا نے جو سب سے زیادہ مسرت بخش اسلام کی خدمت کرنے کی مجھے توفیق دی وہ یہ تھی کہ ووکنگ مسجد کی امامت سے مستعفی ہونے سے قبل ایسے حالات پیدا کرنے میں کامیاب ہوگیا کہ اس مسجد اور مرکز میں اب کبھی بھی کسی مرزائی امام کا تقرر نہیں ہوسکتا۔ وما توفیقی الا باﷲ!
میں اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو ایک مشورہ دینے کی جرأت کرتا ہوں۔ اس توقع پر کہ مسلم اکابرین اور اسلامی حکومتوں کے سربراہ ان خیالات اور جذبات کو کما حقہ اہمیت دیں گے۔ میرے یہ تأثرات قادیانیوں کے ساتھ عمر بھر کی آویزش اور تجربات پر مبنی ہیں۔ مرزائیت کے عقائد اور فرقہ بندیوں میں اب اسلام کے لئے کوئی خطرہ باقی نہیں رہا۔ اس مذہبی فریب کا بھونڈا چہرہ مدت سے بے نقاب ہوچکا ہے۔ اسلام میں بطور ایک دین الٰہی کے پوری صلاحیت ہے کہ اس قسم کی غیرشرعی تحرکوں کا مقابلہ کر سکے۔ لیکن مرزائیت کی طرف سے اب ایک نئے قسم کا خطرہ پیدا ہورہا ہے۔ قادیانی ٹولے نے اب بین الاقوامی سیاست میں بھی ناٹک کھیلنا شروع کر دیا ہے اور دشمنان اسلام کے پاس چوری چھپے اپنی خدمات بیچنا شروع کر دی ہیں۔ جاسوسی کا پیشہ ہمیشہ پر منفعت ہوتا ہے۔ لیکن جب غیرممالک میں جاسوسی کے اڈے مذہب کے نام پر تبلیغی مراکز کے بھیس میں کھولے جائیں تو یہ گماشتگی سودمند ہونے کے ساتھ خطرہ سے بھی آزاد اور آسان ہو جاتی ہے۔ غیرمسلموں کا عام طور پر یہ خیال ہے کہ ہماری طرف سے مرزائیت کی مخالفت محض مذہبی تعصب کی بنا پر ہورہی ہے۔ وہ یہ حقیقت نہیں سمجھ پاتے کہ عقائد کے اختلافات کے علاوہ قادیانی منڈلی کو اسلام دشمن قوموں نے خرید رکھا ہے اور انہیں اسلامی ممالک میں اپنے سیاسی اور اقتصادی فوائد کو فروغ دینے کے لئے شریک کار بنا رکھا ہے۔ ان سب ملاحظات کے علاوہ مرزائیت کی مخالفت کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ مسلم شرفاء کے دلوں میں یہ تشویش رہتی ہے کہ قادیانی معاشرہ کارندانہ رنگ کہیں ان کے اپنے نوجوانوں پر نہ چڑھ جائے اور ان کی اخلاقی قدروں کو گھن نہ لگا دے۔ ’’نعوذ برب الفلق من شر ما خلق‘‘ الحافظ بشیر احمد مصری!