برگ سبز
’’الحمدﷲ رب العلمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ سید المرسلین والہ الطیبین ولعنۃ اﷲ علیٰ اعدائہم اجمعین من یومنا ہذا الیٰ یوم الدین‘‘
۲… خداوند عالم کا ہزارہزار شکر ہے۔ جس نے اپنے فضل وکرم سے مجھ کو توفیق عطاء فرمائی اور میں اس قابل ہوا کہ محض خوشنودی خدا کی خاطر آپ کی خدمت میں یہ ناچیز تحفہ پیش کروں اور آپ سے درخواست کروں کہ آپ اس ہدیہ کو قبول فرمائیں اور میرے حق میں دعائے خیر کریں۔
۳… یوں تو اہل بیت وائمہ اطہار کے دشمن بہت ہوئے ہیں اور بہت ہوتے رہیں گے۔ لیکن جس ڈھنگ سے اس نے دشمنی کا حق (مرزاغلام احمد قادیانی نے) ادا کیا ہے اور اس کے فدائی جابجا کر رہے ہیں۔ اپنی نوعیت میں نرالا اور علیحدہ ہے۔
۴… میں دیکھتا ہوں کہ مرزائیوں کی فریب آمیز گفتگو سامعین پر بے اثر ثابت نہیں ہوتی اور بعض سادہ لوح اور کم علم اشخاص ان کے مکر میں آکر تذبذب میں پڑ جاتے ہیں اور اگر کوئی عالم دلائل وبراہین سے ان کی تسلی نہ کرے تو مرزائیوں کے دام تزویر میں پھنس کر ایمان کو خیرباد کہہ دیتے ہیں۔
۵… اگرچہ مرزاقادیانی کو یقین واثق تھا… کہ وہ اپنے تمام دعاوی میں کاذب ہے اور اس کی ریا کارانہ روش آخرت میں اس کے حق میں نہایت خطرناک ثابت ہوگی۔ تاہم اپنی ریاکاری کو قائم رکھنے کے لئے وہ اتنا دور اندیش ضرور تھا کہ اس کی تقریر اور تحریر ذومعنی ہوں اور اپنی منشاء کے مطابق ان کی تحویل کر سکے۔
۶… لیکن جب قدرت کو منظور نہ ہو کہ انبار نجاست پر زیادہ دیر تک مٹی پڑی رہے اور یہ انبار لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہے تو بیکس اور مجبور انسان کیا کر سکتا ہے اور یہی عین انصاف اور رحم ہے۔ رحم تو کم علم اشخاص کی حالت پر ہے۔ جن کے خارج از ایمان ہو جانے کا قوی اندیشہ ہو اور انصاف اس کاذب مدعی کے بارہ میں ہے۔ جس کی سیاہ کاریوں اور دھوکوں کا زیادہ دیر تک عوام الناس کی نظروں سے پوشیدہ رہنا نظام عالم میں خلل انداز ہو۔