تسلیم کرنے والے علیحدہ امت! یہ اختلاف دو امتوں کا باہمی اختلاف ہے۔ ایک امت کے فرقوں کا اختلاف نہیں۔
ایک عدالتی رائے
یہ بات صرف ان اہم حوالہ جات کی بناء پر ہم ہی نہیں کہہ رہے۔ پاکستان کی جن عدالتوں میں قادیانی مسلم نزاع نے باقاعدہ مقدمے کی صورت اختیار کی ان کی رائے بھی اس ضمن میں یہی ہے کہ مرزاقادیانی کے دعاوی نے فیصلہ کن صورت اختیار کر لی تھی اور ان دعوؤں کی بناء پر ان کے اور مسلمانوں کے مابین بعینہ ایسی قسم کا اختلاف پیدا ہوگیا تھا۔ جس قسم کا اختلاف یہودیوں اور عیسائیوں اور مسلمانوں میں ہے۔
راولپنڈی کے سیشن جج شیخ محمد اکبر اپنے ایک فیصلے میں لکھتے ہیں:
۱… مرزاغلام احمد قادیانی نے ۵؍مارچ ۱۹۰۸ء کو بدر میں لکھا: ’’وہ خدا کے احکام کے تحت پیغمبر ہیں۔‘‘
۲… مرزابشیرمحمود نے (حقیقت النبوۃ میں ص۱۷۴) پر لکھا: ’’مرزاغلام احمد قادیانی اس لفظ کے صحیح معنوں میں نبی ہیں اور شریعت کے مطابق وہ مجازی نہیں بلکہ حقیقی نبی ہیں۔‘‘
نبوت کے ایسے اعلان کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو بھی مدعی کی حیثیت کو ماننے سے انکار کرے کافر ہو جاتا ہے۔ چنانچہ قادیانی تمام ایسے مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں جو مرزاغلام احمد قادیانی کی حقیقی نبوت پر ایمان نہیں رکھتے۔ اس ضمن میں حسب ذیل مثالیں دی جاتی ہیں۔
۱… ’’ہر وہ مسلمان جو مرزاغلام احمد قادیانی کی بیعت میں شامل نہیں ہوا۔ خواہ اس نے ان کا نام بھی نہ سنا ہو کافر ہے اور اسلام کے دائرے سے خارج ہے۔‘‘ (آئینہ صداقت ص۳۵)۲… ’’ہر شخص جو موسیٰ علیہ السلام پر ایمان رکھتا ہے لیکن عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہیں رکھتا یا عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان رکھتا ہے۔ لیکن پیغمبر اسلامﷺ پر ایمان نہیں رکھتا یا پیغمبر اسلامﷺ پر ایمان رکھتا ہے لیکن مرزاغلام احمد قادیانی پر ایمان نہیں رکھتا پکا کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔‘‘ (ریویو آف ریلیجنز ص۱۱۰)
۳… مرزابشیرمحمود نے سب جج گورداسپور کی عدالت میں حسب ذیل بیان دیا تھا۔ جو (الفضل مورخہ ۲۶،۲۹؍جون ۱۹۲۳ئ) میں شائع ہوا۔
’’مرزاقادیانی پر ہمارا ایمان ہے۔ غیراحمدیوں کا ان پر ایمان نہیں ہے۔ قرآن کریم