٭… اسی طرح الہام ہوا۔ ’’وما ینطق عن الہویٰ ان ہو الا وحی یوحی‘‘
(اربعین نمبر۲ ص۳۶، خزائن ج۱۷ ص۳۸۵)
٭… ’’دنیا میں کوئی نبی نہیں گذرا جس کا نام مجھے نہیں دیا گیا۔ سو میں جیسا براہین احمدیہ میں خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں آدم ہوں۔ میں نوح ہوں، میں ابراہیم ہوں، میں اسحاق ہوں، میں یعقوب ہوں، میں اسماعیل ہوں، میں موسیٰ ہوں، میں داؤد ہوں، میں عیسیٰ ابن مریم ہوں، میں محمدﷺ ہوں۔ یعنی بروزی طور پر جیسا کہ خدا نے اسی کتاب میں یہ سب نام مجھے دئیے اور میری نسبت جری اﷲ فی حلل الانبیاء فرمایا۔ یعنی خدا کا رسول نبیوں کے پیرایوں میں۔ سو ضرور ہے کہ ہر ایک نبی کی شان مجھ میں پائی جائے۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۷۴،۷۵، خزائن ج۲۲ ص۵۲۱)٭…
زندہ شد ہر نبی بہ آمدنم
ہر رسولے نہاں بہ پیرانہم
٭…
منم مسیح زماں منم کلیم خدا
منم محمد واحمد کہ مجتبیٰ باشد
(تریاق القلوب ص۶، خزائن ج۱۵ ص۱۳۴)
مرزاقادیانی اپنی اس تصنیف میں جس کے متعلق ان کا ارشاد ہے کہ وہ الہامی تصنیف ہے اور اس کا نام بھی انہوں نے ’’خطبہ الہامیہ‘‘ ہی رکھا ہے۔
اس میں فرماتے ہیں: ’’واعلم نبیناﷺ کما بعث فی الالف الخامس کذالک بعث فی الآخر الالف السادس باتخاذہ بروز المسیح الموعود‘‘ اور جان کہ ہمارے نبیﷺ جیسا کہ پانچویں ہزار میں مبعوث ہوئے۔ ایسا ہی مسیح موعود کی بروزی صفت اختیار کر کے چھٹیں ہزار کے آخر میں مبعوث ہوئے۔
(خطبہ الہامیہ ص۱۸۰، خزائن ج۱۶ ص۲۷۰)
مرزاغلام احمد قادیانی اس دوسری بعثت کو پہلی مرتبہ کی تشریف آوری سے کہیں زیادہ کامل اکمل بیان کرتے ہوئے اس خطبہ الہامیہ میں فرماتے ہیں۔
’’بل الحق ان روحانیۃ علیہ السلام کان فی آخر الالف سادس