پدر بزرگوار غصے سے لال پیلے ہوکر فرمائیں۔
نالائق کہیں کا، کیا تجھے اتنا بھی شعور نہیں کہ پانچ اور پانچ صد میں سوائے دو نقطوں کے فرق کیا ہے؟ ہم نے پانچ صد لئے تو پانچ ادا کر دینے سے پانچ سو کا حساب صاف ہوا۔ کیا تم نہیں جانتے کہ نقطے کی تو کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
حضرات! ایمان داری سے بتائیے کہ اس وقت اس سعادت مند بیٹے پر کیا گذرے گی؟ مانا کہ باپ کے بارے میں جذبات یہی ہونے چاہئیں کہ ان سے حساب کتاب کا تقاضا نہ ہی کیا جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر حساب ہوا ہے اور لین دین طے پایا ہے تو یہ فلسفہ کہ پانچ روپے ادا کر دینے سے پانصد ادا ہوگئے اور وہ بھی اس بناء پر کہ پانچ اور پانچ صد میں صرف دو نقطوں کا فرق ہے اور نقطے بے حقیقت محض صفر ہوتے ہیں۔ کیا اسے کوئی شخص باور کرسکتا ہے؟
اور اگر معاملہ باپ بیٹے کے مابین نہیں۔ گاہک اور دوکاندار، قرض خواہ اور قرض لینے والے اور بینک کے مابین ہو، اور وہاں کوئی شخص یہ فلسفہ بھگارے کہ میں نے لیا تو پانچ ہزار روپیہ قرض تھا۔ مگر ۵ اور ۵۰۰۰ میں بجز دوتین نقطوں کے فرق کیا ہے؟ تو خدارا غور کیجئے۔ ایسے شخص کی دیانت کے بارے میں کیا فیصلہ کیا جائے گا اور چاہے وہ ہزاربار دوسرے کو قرض ٹھیک ٹھیک ادا کر چکا ہو اور بہت سے معاملات میں شرافت وصداقت کا مظاہرہ بھی کر چکا ہو۔ تنہا یہ ایک واقعہ کہ اس نے پانصد یا پچاس روپے لے کر پانچ روپے ادا کر دینے سے حساب بے باق ہونے کا اعلان کر دیا اور اس پر اصرار کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے اسے درست مانا جائے۔ تو کیا کوئی ہوش مند انسان اسے دیانتدار تسلیم کرے گا؟ اور اگر یہ شخص امام مسجد ہو، کہیں درس قرآن دے رہا ہو۔ کہیں وعظ کر رہا ہو تو کون دین دار ہوگا جو خود گناہ گار ہونے کے باوجود اس کے پیچھے نماز ادا کرنا پسند کرے گا اور اس کے وعظ اور اس کی دینی خدمات اور اس کے دینی جذبے سے متأثرہوگا؟
حضرات! اس سادہ سی حقیقت کو سامنے رکھئے اور پھر سنئے کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے جب تبلیغی میدان میں قدم رکھا تو انہوں نے اعلان کیاکہ وہ صداقت اسلام پر ایک کتاب لکھنا اور چھاپنا چاہتے ہیں۔ جس کے پچاس جزو ہوں گے اور ان پچاس اجزاء کے حساب سے انہوں نے لوگوں سے اس کتاب کی قیمت پیشگی وصول کی۔ مرزاغلام احمد قادیانی نے کتاب کا پہلا جزو براہین احمدیہ حصہ اوّل کی صورت