’’ایک غلطی کا ازالہ‘‘ کو ضبط قرار دیا ہے۔ جو نہایت ہی قابل افسوس امر ہے۔
(الفرقان جولائی۱۹۶۴ئ، ص۳)
’’جماعت احمدیہ ایک آئین پسند اور وفادار جماعت ہے۔ حکومت سے تعاون کرنا اس کا بنیادی نظریہ ہے۔ اس وفا شعار اور امن پسند جماعت کے دلوں کو بلاوجہ مجروح کرنا اور لاکھوں احمدیوں کو جو دنیا کے مختلف ممالک میں آباد ہیں۔ قلبی اذیت پہنچانا ہرگز دانشمندی نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ صورتحال محض غلط فہمی سے پیدا ہوئی ہے۔ اس لئے ہم حکومت سے مؤدبانہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ جلد تر اس پابندی کے حکم کو منسوخ فرمائے۔‘‘ (الفرقان جولائی۱۹۶۴ئ)
اسی طرح پیغام صلح لکھتا ہے:
۱… ’’ہم گورنر مغربی پاکستان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ازراہ کرم پمفلٹ کی ضبطی کے حکم پر نظر ثانی فرمائیں اور جس قدر جلد ممکن ہو اس حکم کو واپس لے کر جماعت احمدیہ کے دونوں فریقوں کو شکریہ کا موقعہ دیں۔‘‘ (پیغام صلح مورخہ ۲۴؍جون ۱۹۶۴ئ)
لیکن اس انداز کے خلاف دوسرے ہی سانس دھمکیوں اور اشتعال انگیزیوں کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔
الفضل لکھتا ہے: ’’احمدیوں کا ایمان ہے کہ اس کتابچہ کا حرف بحرف مقدس ہے اور ان کے ایمان کا جزو ہے۔ اس لحاظ سے اس کی ضبطی کو ہم حکومت کی طرف سے براہ راست مداخلت فی الدین تصور کرتے ہیں… جماعت احمدیہ کے افراد کے لئے ایک ایسا صدمہ ہے جس کو وہ قطعاً برداشت نہیں کر سکتے۔ حکومت نے رسالہ کو ضبط کر کے نہ صرف ہمارے دستوری حقوق کو ضرب پہنچائی ہے۔ بلکہ اپنی کمزوری اور بے احتیاطی کا بھی اظہار کیا ہے… ان کو ایسی آزمائش میں ڈال رہی ہے۔ جس کو وہ طبعاً پسند نہیں کرتا… پاکستان میں شاید ہمارے دین کی حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۲۸؍جون۱۹۶۴ئ)
پیغام صلح نے پہلے تو عرض معروض کا انداز اختیار کیا۔ اس کے بعد اس نے بھی دھمکیوں اور اشتعال دلانے کا راستہ منتخب کر لیا۔ وہ لکھتا ہے: ’’کتابوں کی ضبطی کا سلسلہ ملک میں امن پیدا کرنے کے بجائے منافرت اور دشمنی کا بیج بونے کا موجب ہوتا ہے۔‘‘ (یکم؍جولائی۱۹۶۴ئ)
’’کسی قوم یا مذہب کے عقائد کو دشمنی یا منافرت کا موجب قرار دینا صریح حماقت