فرمایا گیا۔ ان سب کو مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنی خصوصیات کے طور پر پیش کیا۔
۷… جسارت، جارحیت اور ہوس نے مزید قدم آگے بڑھایا اور دعویٰ کر دیا گیا کہ میں ہی وہ احمد آخرزمان ہوں اور یہ بھی کہ محمد رسول اﷲﷺ کی وحی الٰہی میں میرا نام محمد رکھاگیا ہے اور رسول بھی۔
۸… جب یہ سب کچھ ان کے مریدوں نے برداشت کر لیا تو اعلان کردیا کہ محمد رسول اﷲﷺ دو مرتبہ مبعوث ہوئے۔ پہلی بار تو مکہ معظمہ میں اور دوسری بعثت حضور کی قادیان میں میری (مرزاغلام احمد قادیانی کی) شکل میں ہوئی۔
۹… لیکن ان دونوں بعثتوں میں فرق وامتیاز یہ تھا کہ مکہ معظمہ کی بعثت تو پہلے رات کے چاند کی سی تھی اور قادیان میں میری صورت میں حضورﷺ کی جو بعثت ہوئی اس کی شان یہ ہے کہ یہ چودھویں رات کے چاند جیسی تھی اور اس کی روحانیت مکہ مکرمہ والی بعثت سے کہیں زیادہ مضبوط ومستحکم اور قوی تھی۔
۱۰… یہ دعویٰ بھی کردیا گیا کہ سیدنا مسیح ابن مریم علیہ السلام کی جو پیش گوئی قرآن عزیز مبشراً برسول یأتی من بعدی اسمہ احمد آیت مبارکہ میں بیان فرمائی گئی۔ اس کا واحد مصداق مرزاغلام احمد قادیانی تھے۔ حضورﷺ اس کے اس لئے مستحق نہ تھے۔
۱۱… صرف یہی نہیں کہ حضورﷺ اس پیش گوئی کے مستحق نہ تھے۔ بلکہ وہ خصوصی صفات، جو بشارت اسمہ احمد کے مصداق بننے والی شخصیت کے لئے ضروری ہیں۔ چونکہ امام الانبیائﷺ میں نہیں پائی جاتی۔ لہٰذا آپؐ اس پیش گوئی کے مصداق نہیں ہوسکتے۔
۱۲… ثانیاً مرزاقادیانی کی بعثت کے وقت شان محمدیت کو تو گرہن لگا ہوا تھا اور مرزاغلام احمد قادیانی کے ہاتھوں ایک عظیم الشان کام کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اس لئے بھی خاتم النبیین محمد مصطفیٰﷺ اس بشارت کے حق دار نہیں ہوسکتے اور مرزاغلام احمد قادیانی ہی اس کے مصداق ہوںگے۔
۱۳… مرزاغلام احمد قادیانی اور ان کے فرزند مرزامحمود احمد اور ان کے بعد متعدد اہم تر قادیانیوں نے یہ لرزہ خیز ادّعا بھی کیا کہ سیدالکونینﷺ سے یہ عہد لیاگیا کہ اگر ان کی موجودگی میں مرزاغلام احمد قادیانی مبعوث ہوں تو حضورﷺ ان پر ایمان لائیں گے اور حضورﷺ، غلام احمد قادیانی کی نصرت وحمایت کریں گے۔ بالفاظ دیگر حضورﷺ، مرزاغلام احمد قادیانی کے امتی ہوںگے اور اس کے جھنڈے تلے ایک سپاہی کی حیثیت سے مرزاغلام احمد قادیانی کے احکام کی تعمیل کریں گے۔