ملفوظات حکیم الامت جلد 5 - یونیکوڈ |
(ملفوظ 50 ) فرمایا کہ ایک صاحب کا پہلے خط آیا تھا اس کا جواب میں نے لکھا تھا کہ ذکر واشتغال ہی مقصود ہیں یا اصلاح اعمال بھی آج ان صاحب کا خط آیا ہے لکھا کہ سوال ہی میری سمجھ میں نہیں آیا حضرت والا نے جواب میں تحریر فرمایا کہ پھر کس طرح سمجھاؤں کسی اور سے سمجھ لو - زبانی ارشاد فرمایا کہ لوگوں کو اس طرف توجہ ہی نہیں اور وجہ اس کی بے فکری اور طریق سے بے گانگی ہے اور میرا مقصود سوالات سے پو چھنا ہی تھوڑا ہی ہوتا ہے بلکہ بتلانا ہوتا ہے مگر اس طرز میں مصلحت یہ ہے کہ اس میں ذہن پر بار پڑتا ہے خود فکرو غور کرتا ہے اور خود چل پڑتا ہے میں اول ہی میں طالب کو کام میں لگا دیتا ہوں اور بے فکری سے ہٹا کر فکر کی طرف متوجہ کر دیتا ہوں جب تک خود دوڑ سکتے ہیں دوڑیں جب تھک جائیں گے گود میں اٹھا کر راستہ طے کرادیا جاۓ گا اگر خوب فکر کے بعد بھی ذہن نہ پہنچے پھر میں خود بتلا دیتا ہوں ـ طریق میں جزب کی ضرورت ( ملفوظ51 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اس طریق میں کسب کو دخل نہیں جزب کی ضرورت ہے البتہ خود جزب موقوف ہے اعمال پرہاں اس معنی کر کسب کو بھی دخیل کہا جا سکتا ہے کہ وہ اعمال اختیاری ہے مگر یہ دخل بھی محض صورۃ ہے ورنہ ہمارے اعمال ہی کیا ـ اس لۓ میں پھر یہی کہوں گا کہ کسب کو دخل نہیں جزب ہی پر موقوف ہے بعض لوگ کہتے ہوں گے یا خیال کرتے ہوں گے یہ اختیاری اور غیراختیاری کے الفاظ خوب سیکھ لۓ ہیں ہر گجہ جاری کر دیے جاتے ہیں مگر معلوم بھی ہے کہ اس کی بدولت بہت سے خلجانوں سے نجات مل گئ ـ یہ تعلیم صدیوں سے گم ہو چکی تھی اس کی بدولت لوگ سخت پریشانیوں میں مبتلا تھے اب اگر کوئ کسی حالت کی نسبت پوچھنے پر لکھتا ہے کہ غیر اختیاری ہے تو میں لکھتا ہوں تو اس کے درپے کیوں ہو اور اگر کہتا ہے کہ اختیاری ہے تو میں جواب دیتا ہوں کہ پھر ہم سے کیوں پوچھتے ہو اختیار سے کام لو ـ بس مناقشہ ختم ہو جاتا ہے اس لۓ میں کہتا ہوں کہ یہ اختیاری اور غیر اختیاری کا مسئلہ نصف سلوک ہے ـ بلکہ اگر نظر عمیق سے دیکھا جاۓ تو کل سلوک کہنا بھی میرے نزدیک بے جا نہ ہو گاـ سیدھی بات میں بھی تعلیم کی ضرورت