ملفوظات حکیم الامت جلد 5 - یونیکوڈ |
نے فرمایا کہ نرمی کی ضرورت ہے اس لئے بعض اوقات عمل میں بھی ان کی موافقت کرتا رہا ایک زمانہ دراز اس پر گزا اس کے بعد تجربہ سے وہ پہلا ہی طریق نافع ثابت ہوا جس پر الحمدللہ اب تک قائم ہوں غرض کسی حالت میں بھی اہل بدعت کو کبھی مجھ سے نفرت کا درجہ نہیں ہوا گو مسلک کا اختلاف ضرور رہا حقیقتہ تو ہر زمانہ میں اور صورۃ بھی بعض زمانوں میں - صرف مدعا علیہ کے زمہہ واجب ہے ( ملفوظ 207 ) ایک صاحب نے سوال کیا کہ مدعی اپنے حق کا عدالت میں مدعاعلیہ پر دعوی کرتا ہے اور مدعی کا جو کا اس پر صرفہ ہوگا وہ مدعا علیہ کے ذمہ ہوگا یا نہیں فرمایا کہ مولانا سعد اللہ صاحب رامپوری کا تو یہ فتوی ہے کہ اس کے ذمہ نہیں اور میری اصل رائے بھی یہی ہے اور مولانا عبدالحی صاحب لکھنوی اور مولانا رشید احمد صاحب کا فتوی ہے کہ مدعا علیہ کے ذمہ واجب ہے کیونکہ اس کے تمرد سے مدعی کو نقصان پہنچا اگر یہ ایسا نہ کرتا اور مدعی کا حق ادا کردیتا تو اس کو کی ضرورت تھی اس مقصان کے برداشت کرنے کی سنو موذیوں کو ایزاء سے روکنے کابھی زریعہ ہوسکتا ہے اگر یہ معلوم ہوجائے کہ کچھ نہ دینا پڑے گا تو بڑا تمرد بڑھ جائے - پہلے زمانہ میں غیرت وحمیت کی کیفیت ( ملفوظ 208 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ فرمایا کہ ہرانے زمانہ میں دنیا دار لوگ تو دینا کو دین پر مقدم رکھتے تھے مگر اب تو علماء ہی سب سے زیادہ ڈوبنے لگے لوگوں میں پھر حمیت اور غیرت تھی اب یہ چیزیں مفقود ہیں ہمارے خاندان میں ایک بڑی بی کہا کرتی تیھں کہ بھائی پہلے کوئی کارڈ تھا کہ ایسے کریں گے تو کوئی یوں کہے گا اور خدا کا ڈر تو اس وقت بھی کم ہی تھا مگر اب تو کوئی کوبھی کوئی میں - ( یعنی چھوٹے کنویں میں ) ڈال دیا بے باک ہوگئے آزاد ہوگئے نہ خدا کا ڈر رہا نہ کوئی کاڈر - ایک لڑکی سے غلطی ہوگئی تھی وہ کنواری تھی لغزش سے حمل قرار پاگیا تگا اس کی نائی آئی اور الگ لیجا کر کہا بیٹی میں کل کو تجھے غسل دینے آؤں گی بس رات لو لڑکی نے سنکھیا کھالیا ختم ہوگئی صبح کو وہ غسل دینے آئیں آکر دیکھا معاملہ ختم ہے یہ کیفیت تھی غیرت اور حمیت کی اگرچہ بری مشکل میں اس کا ظہور ہوا غرض غلطیاں تو پہلے بھی ہوتی تھیں مگر اس کے ساتھ غیرت بھی تھی اب تو غیرت کا نام ونشان نہیں رہا