ملفوظات حکیم الامت جلد 5 - یونیکوڈ |
22 ربیع الاول 1351 ھ مجلس بعد نماز ظہر پنجشنبہ آنے والوں کو اپنے سے افضل سمجھنا ( ملفوظ 136 ) ایک نوادر صاحب اکر کھڑے رہے فرمایا کہ پیٹھ جاؤ - پیٹھ کر کہو جو کچھ کہنا ہو وہ صاحب بیٹھ گےت اور بیٹھ کر بھی کچھ نہیں کہا فرمایا کہ جو چھ کہنا یو کہہ لو مجھ کو اور بھی کام ہیں پریشان کیوں کرتے ہو اس پر بھی وہ صاحب خامومش رہے فرمایا کہ جو کچھ میں نے کہا کیا سنا نہیں عرض کیا کہ کچھ خیال نہیں کیا فرمایا کہ نواب ہو کام تو تمہارا اور پھر خیال بھی نہیں کرتے - جاؤ چلویہاں سے اپنے گھر جاؤ جب دل بر ہو جاتا ہے کام نہیں ہوا کرتا اب دیکھ لیجئے کہ اتنی دور سے آپ آئے اور یہ بالکل غیر ممکن ہے کہ بدون سوچے گھر سے چلدئے ہوں کہ فلاں جگہ جارہاہوں اور کسی کام جارہاہوں چاہئے تو یہ تھا کہ بدون پوچھئے ہوئے کہہ دیتے مگر بار پوچھنے پر بھی اول تو موجب بدارد اور جواب دیا تو کہ کچھ خیال نہیں اب اگر دوسرے کو فقیر نہ ہو تو اور کیا ہو بلکہ اگر اس پر بھی تغیر نہ ہو میں تو اس کو بے حسی خیال کرتا ہوں معاشرے کا ناس ہوگیا نہ دنیا دار ونیا کے قاعدہ سے لازم سمجھتے ہیں جب یہ بات ہے تو پھر ہم بھی کسی قاعدہ سے اپنے ذمہ لازم ہوگا اسی قاعدہ سے بھی الزام دیں گے اب ایک ہی بات کو کون لئے بیٹھار ہے اسی کو کہرل کئے جائیں اور مجلس آرائی کیا کرے یہ تو وہ کرے جسے اور کام نہ ہو یہاں تو دوسرے ہی کوموں سے فرصت نہیں اور وہ دوسرے کام بھی اپنے تھوڑا ہی ہیں وہ بھی خدمت خلق ہی ہے اب مثلا یہ ڈاک کا ہی کام ہے کیا یہ میرا ہے یا تصنیف کا کام ہے کیا میرا کام ہے اس پر بھی جب وہ شخص کچھ نہ بولا تو فرمایا ارے اب بھی خاموش بیٹھا ہے موذی جواب کیوں نہیں دیتا عرض کیا کہ مجھ سے غلطی ہوئی معاف کردیجئے فرمایا کہ معافی کو کیا میں تجھ کو پھانسی دے رہا ہوں قتل کررہاہوں کوئی لٹھ یا تلوار میرے ہاتھ میں چل اٹھ چلتا بن بد فہم بیٹھے بٹھلائے قلب کو مکدر کیا پریشان کیا ان موذیوں کی حرکتوں کو کوئی نہیں دیکھتا کہ یہ حرکتیں یہاں پر آکر کرتے ہیں آخر میں بھی تو بشر ہوں انسان ہوں کہاں تک صبر کروں اور صبر بھی کرسکتا ہوں مگر ان بہبودوں کی آنکھیں کسیے کھلیں گی اور ان کی