ملفوظات حکیم الامت جلد 5 - یونیکوڈ |
اور مزاح وقار کے خلاف ہے میں نے جواب دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک ہیبت خدا داد تھی اور منصب حضور کا تھا تبیلیغ اور افادہ اور ہیبت لوگوں کو استفادہ سے مانع ہوسکتی تھی اس کے لئے بے تکفلی کی ضرورت تھی اس بے تکلفی پیدا کرنے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم قصدا مزاح فرماتے تھے تو مزاح مصلحت سے ہو وہ اقار کے خلاف نہیں پس اس سے یہ شبہ بھی رفع ہوگیا مولانا فضل الرحمن صاحب گنج مراد آبادی رحمتہ اللہ علیہ مجزوب تھے انھونے نے ملکہ نصیبن نام رکھ تھا شاید اس کی یہ وجہ ہو کر اس کے زمانہ میں نہایت ہی امن وسکون سے حکومت رہی بعد میں فسادات کی گٹھٹریاں کھل گئیں اس وقت صرف ایک فتنہ تھا کفر کا یہ فسادات کچھ نہ تھے شاید یہ وجہ ہو - حقیقت منکشف ہونے کے بعد تصوف دشواری نہیں ( ملفوظ 140 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایاکہ اس طریق میں دشواری اسی وقت تک ہے کہ جب تک اس کی حقیقت سے بے خبری ہے اور حقیقت منکشف ہوجانے پر پھر اس سے زیادہ کوئی چیز آسان اور سہل نظر آتی فن نہ معلوم کونے کی وجہ سے جا ہلوں نے تصوف کو اس طرح لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے کہ بجائے سہولت اور آسانی کے دشوار معلوم ہونے لگا اوت بجائے رغبت کے اس سے وحشت پیدا ہوگئی میں تو کہا کرتا ہوں کہ تصوف کا فن صرف ایک مسئلہ پر ختم ہے احتیاری اور غیر احتیاری کی تقسیم - پس انسان اختیاری کو کرے اور غیر اختیاری کے درپے نہ ہو چلو چھٹٰی ہوئی - یہ ایک مختصر سی اور بے حد سہل بات ہے جو میں بیان کی اس پر مہر علی شاہ صاحب کا مقولہ یاد ایا جو ایک صاحب نے مجھ سے بیان کیا تھا انہونے باوجود اختلاف مسلک کے فرمایا کہ فلاں شخص ( میں مراد تھا ) نے تصوف کی خوب خدمت کی ہے آسان کر کے دکھلایا بعضوں کو اس سہولت کے متعلق یہ شبہ ہوجاتا ہے کہ تعبیر بھی سہل سمجھنا بھی سہل مگر عمل کرنا تو مشکل ہی ہے میں کہتا ہوں کہ عمل بھی کون مشکل ہے صرف ہمت یعنی عزم قوی کی ضروی ہے اور اگر اشکال ایسا ہی سستا ہے تو کھانا بھی مشکل ہونا چاہئے اس لئے بدون عزم کے وہ بھی حلق سے نیچے نہیں اترتا اور تصوف کے حصول کی ایک تدبیر اس سے بھی سہل بتلاتا ہوں وہ یہ کہاہل ہمت کی صحبت واطاعت اختیار کرو اسکو دیکھ کر خود بخود