ملفوظات حکیم الامت جلد 5 - یونیکوڈ |
چاشت صلوۃ الاوابین اور اگر صوفی ہوئے تو ذکر و شغل بھی بس ہوگئے قطب الا قطاب معاشرت کو دین کی فہرست سے خارج ہی سمجھتے ہیں بالکل یہ سمجھتے ہیں کہ اس کودین سے کیا تعلق حالانکہ یہ بھی دین کا بڑا حصہ ہے اسو جس طرح نماز روزہ وغیرہ فرض ہیں یہ بھی فرض ہے مگر دیکھنا جاتا ہے کہ کہیں نہ اس کی تعلیم ہے نہ اس کا تزکرہ اور اہتمام حتی کہ مشائخ کے یہاں بھی بس یہی چند چیزیں تعلیم ہوتی ہیں جنکا میں زکر کرچکا ہوں اب الحمد للہ صدیوں کے بعد طریق کی حقیقت واضح ہوئی اور روز روشن کی طرح مخلوق پر ظاہر ہو گئی پھر اس کو اپنے اغراض فاسدہ کیوجہ سے ناپیدا کرنا چاہتے ہیں مگر اب یہ انشاء اللہ تعالیٰ غیر ممکن ہے اب بضفل خدا وندی صدیوں تک کسی نئی کوشش کی ضرورت نہیں اور جب ہوگی وہ اپنے دین کے محافظ ہیں وہ اپنے کسی اور بندہ کو پیدا فرمادیں گے سوا اس حالت میں کہ فضل الہی سے اس طریق کا احیا ء ہوگیا میں کسی طرح ایسے بد فہموں کی خاطر اپنے اصول وقواعد اور اپنے طرز اور مسلک کو چھوڑ دوں مجھ ہی کوتو معلوم ہے کہ یہ اصوک اور کس طرح منظبط اور مدون ہوئے ہیں ان کی تاسیس کے اسباب بیان کروں تو ایک اچھا خاصہ دفتر تیار ہوجائے اب ان لوگوں کو خبر نہیں اس لئے یہ اپنی ہی باتیں بناتے پھرتے ہیں اور ایسی بہودہ تحریر اور بے جوڑ باتیں کر کے دینوی اغراض حاصل کرنا چاہتے ہیں اور دین کو اس کا واسطہ بنانا چاہتے ہیں جو سخت قبیح ہے مولانا شیخ محمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ بہت زیادہ قرضدار تھے مریدین وغیرہ نے بہت چاہا کہ ہم چندہ کر کے ادا کردیں فرمایا کہ بے غیرتی مجھ سے ہرگز گورا نہیں ہوسکتی ہاں اتنا تو گورا کر سکتا ہوں کہ ایک شخص تنہا ادا کردے اہک ہی احسان ہو باقی یہ صورت کہ تھوڑا تھوڑ جمع کیا جائے یہ کسی طرح گوارا نہیں ہوسکتا غرض ہر شعبے میں حدود ہیں آجکل حدود چھوڑ کر دکانداروں نے طریق کو بدنام کردیا کہا نتک کوئی اصلاح کرے کثرت سے گمراہ کرنے والے کمر باندھے پھرتے ہیں - لفافہ میں خط رکھنے کا انداز ( ملفوظ 295 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میں تو یہاں تک خیال رکھتا ہوں کہ لفافہ میں جو خط رکھتا ہوں اس میں بھی اس کا خیال رہتا ہے کہ کہیں نشیب اور کہیں فراز نہ رہے