حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
و ملل سے علحٰدہ نظر آتا ہے۔ تم کو وسوسہ ہوتا ہوگا کہ اگر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی تعلیم تھی تو پھر اسلام نے رہبانیت کی کیا مخالفت کی اور اسے قسیّسوں احباروں کی خود تراشیدہ امور میں کیوں شمار کیا۔ میں اسی سوال کے جواب کی طرف تمھیں متوجہ کرانا چاہتا ہوں۔ عام طور پر سمجھ لیا گیا ہے کہ زہد و تقویٰ اس کا نام ہے کہ آبادیوں کو چھوڑ کر پہاڑوں اور بیابانوں میں نکل جانا چا ہئے۔ اور وہیں کہیں تنہائی میں بیٹھ کر خدا کی عبادت میں مصروف ہونا چاہئے۔ حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’ راستوں سے ہڈیاں اٹھانی یہ بھی نیکی ہے۔ کسی بھٹکے ہوئے کو راستہ بتا دینا یہ بھی صدقہ ہے کسی کمزور آدمی کی معاونت کرنی یہ بھی صدقہ ہے اور تیرا اپنی بیوی کی ساتھ ہم بستر ہونا یہ بھی صدقہ ہے‘‘۱؎ حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ( تعجب سے) پوچھا کہ حضور ﷺ کیا بیوی کے ساتھ ہم خلوت ہونے میں صدقہ ہے؟ حالانکہ اس میں تو آدمی اپنی نفس کی خواہش پوری کرتا ہے، کیا آدمی اپنی خواہش بھی پوری کرے گا اور اجر بھی پائے گا؟ سید الانبیاء علیہم الصلاۃ والتسلیمات نے فرمایا۔ اچھا بتاؤ اگر تم اس خواہش کو کسی ناجائز اور حرام طریقے سے پوری کرتے تو کیا یہ گناہ نہ ہوتا حضرت ابوذرؓ نے کہا یقینًا ------------------------------ ۱؎ مسند احمد