حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
بعض ایمان لے آتے تھے اور بعض کفر ہی پر قائم رہتے جو مسلمان ہو جاتا تھا آپ اس کا سارا مال دانہ دانہ رتی رتی کر کے واپس فرما دیتے جو انکار کرتا تھا اسے بہ یک بینی و دو گوش روانہ کر دیتے۔ جو لوگ یہاں مسلمان ہوتے تھے مکہ معظمہ میں جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتے اور اس طرح روز بروز اسلام کی تعداد میں ایک اور اضافہ کی صورت نکل آئی۔ حضرت ابوذرؓ جس کام پر معمور کئے گئے تھے خدا کے فضل سے اس میں غیر متوقع کامیابی ہو رہی تھی۔ اس واقعہ میں سب سے زیادہ غور کرنے کی چیز یہ ہے کہ اگر حضرت ابوذرؓ کے ہاتھ پر ایمان لانے والے محض مال کی طمع سے مسلمان ہوتے تھے تو ان کے لئے بالکل ممکن تھا کہ مکہ میں جا کر پھر جاتے، لیکن تاریخ اس کی ایک نظیر بھی پیش نہیں کرتی۔ جو مسلمان ہوتا تھا بس ہمیشہ کے لئے ہوتا تھا، کہ حق وصداقت کی روشنی دلوں میں خواہ کسی وسیلے سے بھی ہو جب صحیح طور پر اتر جاتی ہے تو دیکھا گیا ہے کہ پھر وہ بہت مشکل سے بجھتی ہے۔ الغرض عسفان کی گھاٹیوں میں آپؓ ایک زمانہ تک نہایت دلیری کے ساتھ اسلام کی اس اہم خدمت کو انجام دیتے رہے باوجودیکہ یہ کل تین آدمی تھے اور اس میں بھی تیسری آپ کی والدہ ایک بوڑھی عورت تھیں۔ لیکن منقول نہیں کہ آپ کو کبھی کفار مکہ سے عسفان میں کوئی گزند پہنچا۔ کہ منصب تبلیغ پر پہنچنے والوں کے لئے۔ واللہ یعصمک من الناس خدا تمھیں آدمیوں کی شرارت سے محفوظ رکھے گا۔ کا وعدہ یزدانی موجود ہے۔وطن کی طرف مراجعت ٹھیک ٹھیک میں نہیں بتا سکتا کہ حضرت ابوذرؓ