حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
غفاریوں کے اخلاق و عادات ۔ قریش ۱ کے رحلۃ الصیف کا ایلاف و شوق اِنہیں پہاڑی سڑکوں کی پشت پر پورا ہوتا تھا۔ آئے دن قریشی تاجروں، عربی ساہوکاروں کے ہزاروں اونٹ عرب کی مخصوص پیداواروں سے لدے ہوئے شام کی طرف جاتے تھے۔ اور وہاں سے شامی غلّے رومی دولتوں کے انبار عرب لاتے تھے خیال کیا جاتا ہے کہ جوں جوں بازنطینی حکومت شام میں اپنے قدم جما رہی تھی عربی تجارت کو خاص ترقی ہوتی رہی۔ غسانیوں کی پشت پناہی میں رومی درباروں تک عرب کی بخوبی گزر ہوتی تھی۔ ان کے لئے ان ملکوں میں ہر طرح کی آسانیاں مہیا ہوتی رہیں۔ تا آنکہ آخر زمانہ میں تو عرؔب تجارت سے رومی حکومت نے چنؔگی کا محصول بھی اٹھا دیا تھا۔ قیاس کا مقتضیٰ ہے کہ عرب کی اِن تجارتی ترقیوں پر راستے کے قبائل و اعراب کی للچائی ہو نگاہیں پڑنے لگیں اور رفتہ رفتہ اس معاملہ نے یہ صورت اختیار کی کہ غفار کے جوشیلے بہادر نوجوانوں سے نہ رہا گیا۔ پھر جیسا کہ جہالت و افلاس اور شجاعت کےمجموعی جذبات و قویٰ کا تقاضہ ہے۔ غِفاریوں کے ہاتھوں سے دامن صبر چھوٹ گیا۔ گزرنے والے قافلوں پر اُنھوں نے ڈاکہ زنی شروع کر دی۔ بیچارے راہ گیر و غریب مسافروں کو لوٹنے لگے ۔ اس کے بعد یہ ناممکن تھا کہ ان کی غارت گری اسی حد تک آ کر ٹھیر جاتی۔ ہر جرم دوسرے جرم کا مقدمہ ہے علم النفس کا ایک مشہور و مسلم ْْْ------------------------------ ۱ قریش اپنے ملک سے تجارت کی غرض سے دو موسموں میں نکلا کرتے تھے گرمیوں میں ان کا سفر شام و بصریٰ کی طرف ہوتا تھا اس کا نام رحلۃ الصیف یعنی گرمی کا سفر تھا، اور سردیوں میں وہ یمن کے مرکزی شہروں میں گھومتے ہوئے عراق کی طرف پھیل جاتے تھے اور اس کا نام رحلۃ الشتا یعنی سردی کا سفر تھا، قرآن مجید نے ان کے دونوں سفروں کا ذکر خاص مناسبت کے ساتھ کیا ہے۔