حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
رضا اضطرار و مجبوری کے قالب میں ڈھل کر رفتہ رفتہ عشق اور عشق کے بعد، جذب و وجد وارفتگی کی صورت میں ظاہر ہو کر بالآخر برہم زن ایوان صبر و قرار، عقل و ہوش ثابت ہوتی ہے۔ دنیا نے ہمیشہ اس کیفیت کو خواہ وہ کسی وجہ سے ہو جنون و دیوانگی سے تعبیر کیا ہے اور مذہب و تصوف کے محاورہ میں ایسے نفوس کو مجاذیب و بہالیل کا خطاب دیا گیا ہے۔مجذوبوں کی اصل اور ان کا سرچشمہ اگرچہ اتنے اہم مسئلہ پر کوئی قطعی رائے قائم کرنی مشکل ہے تاہم واقعات کی رہنمائی میں اس کا سراغ ضرور ملتا ہے کہ جس طرح آج اسلام کی مختلف شاخیں مختلف اصحاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہیں اسی طرح طائفہ مجاذیب و بہالیل جو فقراء کی مشہور جماعت ہے اس کے سنگ بنیاد، خشت اول قرن صحابہ میں حضرت ابوذر رضی ا للہ تعالیٰ عنہ تھے۔ حالات موجود ہیں۔ اس کی کھلی نشانیاں تم اس میں ڈھونڈ سکتے ہو اور نہ صرف اس قدر بلکہ مجذوبوں کی اصل حقیقت پر حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سوانح حیات سے پوری روشنی پڑتی ہے۔ ایک معیار ملتا ہے۔ جس پر زمانہ حال کے مجذوبوں کو جانچا جا سکتا ہے۔آپؓ کی مجذوبانہ وضع سب سے پہلے جو چیز ہمارے سامنے آئی ہے وہ آپؓ کی وضع اور ہئیت ہے طبقات ابن سعد، مسند احمد و نیز دوسری کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؓ کے بال پریشاں رہتے تھے ڈاڑھی بالکل الجھی ہوئی رہتی تھی۔ خود اس میں کبھی کنگھی وغیرہ نہیں فرماتے تھے۔ کوئی آدمی جب آپؓ کو اس حال میں دیکھتا تو پکڑ لیتا۔ نہلا دھلا کر