حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
ایک جھونپڑا ڈال لیا تھا۔ قریب ہی میں آپ نے ایک تالاب بھی بنوا لیا تھا، جس میں برسات کا پانی جمع ہو کر ذخیرہ ہو جاتا تھا آنے جانے والے مسافر اور ان کی سواری کے جانوروں کا کام بھی اس تالاب کے پانی سے چلتا تھا اور ربذہ میں جس زمین پر آپ کاشت کرتے تھے اس کی سیرابی اور جو نخلستان تھا اسکی بھی سیرابی اسی سے ہوتی تھی، بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت ابوذرؓ کے ساتھ دوسرے مشہور کاشت کار صحابی رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی مدینہ چھوڑ کر ربذۃ میں آ بسے تھے الطبری نے اس واقعہ کو نقل کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ ان دونوں نے کوئی بات سنی تھی یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات سنی تھی جس کی تشریح پورے طور پر تو ان سے نہیں کی گئی تھی لیکن دونوں کی سمجھ میں بھی آیا اور ربذہ آنے پر دونوں متفق ہو گئے طبری ۶۷ میرا خیال ہے کہ کاشتکاری اور باغبانی کے اس ذوق میں جسے ربذۃ میں حضرت ابوذرؓ کے اندر ہم پاتے ہیں اس میں حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس خاندانی ذوق کو بھی غالبًا دخل تھا کیونکہ ان ہی کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کے خاندان سے بڑا کاشتکار عہد نبوت میں اور کوئی نہ تھا۔اہل و عیال بہرحال ربذہ میں آپ کے ساتھ ایک تو آپ کی حرم محترمہ اور دوسری آپ کی صاحبزادی صاحبہ تھیں۔ کیونکہ بچے تو بہت پیدا ہوئے لیکن عمومًا کمسنی میں وفات پا گئے حلیہ میں ابو نعیم نے بچوں کے مرنے کے متعلق آپ کا ایک عجیب فقرہ نقل کیا ہے۔ کسی نے آپ سے پوچھا کہ ابوذرؓ آپ کے بچے زندہ کیوں نہیں رہتے آپؓ نے فرمایا۔ الحمد للہ الذی یاخذھم فی دار الفناء و یذخرھم فی دار البقاء شکر ہے اللہ کا جس نے ان بچوں کو فانی گھر میں لے لیا اور باقی رہنے والے گھر کے لئے ان کو ذخیرہ بنا دیا۔