حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
کرتے تھے۔ اس کے بعد پھر اس معاملہ میں کوئی جان باقی نہیں رہتی اور تمام جھگڑے صرف غلط فہمیوں پر مبنی معلوم ہوتے ہیں جو اس قسم کے مسئلوں میں عام بات ہے۔وفات ۳۲ ہجری ہجرت ۱؎ کا بتیسواں سال اپنی ہستی فنا کرتے ہوئے اپنے اخیر مہینے ذی الحجہ میں قدم رکھ چکا ہے عرب و عجم کی بے شمار روحیں عشق الٰہی میں سرشار و مست ہو ہو کر مکہ معظمہ کے وادیوں میں پھیل رہی ہیں۔ عراق کے مسافر ذات عرق کے راستہ سے ربذہ کی پر فضا منزل سے گزر کر لبیک اللھم لبیک لا شریک لک لبیک کی دلگداز آوازوں سے ان دبی چنگاریوں کو بھڑکا رہی ہیں۔ جنھوں نے ابوذر کے سینہ کو آتشدان بنا رکھا تھا۔ ربذہ کے سامنے سے جو حاجی مستانہ لباس میں پا برہنہ گزرتا اگر اور کچھ نہیں کرتا تھا تو کم از کم ابوذرؓ کے دل کو ضرور روند ڈالتا تھا۔ خصوصًا اس سال کہ تمام ممالک محروسہ اسلام میں یہ اعلان عام طور سے شائع ہوگیا تھا کہ اس سال بھی مدینہ کا روحانی و جسمانی سلطان اپنے حقیقی میک قدوس کے آستانہ پر جبین نیاز جھکانے آئے گا یعنی عام طور پر یہ خبر ملک میں گرم تھی کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حج میں بھی شریک ہوں گے۔ دور دور کے لوگ بیک کرشمہ دوکار کے اصول کو پیش نظر رکھ کر مکہ امنڈتے چلے آتے تھے، کہ حقیقی و مجازی دونوں جمال و جلال کا نظارہ ------------------------------ ۱؎ طبری ۸۱ ج ۵ ۔ مطبوعہ مصر