حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
تاہم میں اپنے خاص خاص نتائج کو لکھتے ہوئے ایسے الفاظ کا استعمال کیا ہے جو نقلی اور قیاسی بیان میں تمیز بخش سکتے ہیں۔ و باللہ التوفیق۔جدید دیباچہ تصنیف سے تیس سال کے بعد الحمد للہ الذی بعزتہ و جلالہ تتم الصالحات، صالحات، اور بننے والی باتوں کا بنانے والا اس کے سوا کون ہے کہ جہاں جلال ہے، اسی کا جلال ہے، اور جہاں عزت ہے اسی کی عزت ہی اس کی اعجوبہ طرازیوں کیا کیا ٹھکانہ ہے۔ بڑے اور چھوٹے کاموں پر نہ جائیے کہ جو چھوٹا ہے وہ چھوٹا ہی ہے، پر جو بڑا ہے، ہمارے اور آپ کے لحاظ سے وہ بڑا ہی، لیکن جو سب سے بڑا ہے، اللہ اکبر اس کے سامنے بڑائی کس کے لئے ہی۔ اللہ اللہ میں ان دنوں بیتے ہوئے دنوں کو کتنی حیرت کے ساتھ سوچتا ہوں، خیال آتا ہے کہ اس وقت جبکہ ہجری سن کے حساب سے ۱۳۶۴ ؍ کا سال ہے اس سال کا یہی ربیع الاول الانوار الاقدس کا پاک اور برگزیدہ مہینہ تھا، لیکن سن آج سے ٹھیک تیس سال پہلے ۱۳۳۴ ہجری کا تھا، داالعلوم دیوبند کے مجلّہ شہریہ’’ القاسم ‘‘ کی ربیع الاول ہی کی اشاعت تھی کہ ’’ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘‘ کے عنوان سے یہی مضمون جو آپ کے سامنے کتاب کی شکل میں پیش ہو رہا ہے شائع ہونا شروع ہوا تھا لکھنے والے کے شان و گمان میں بھی نہ تھا کہ جس مضمون کو ایک مجلاتی مقالہ کی حیثیت سے وہ لکھ رہا ہے وہ کسی زمانے میں کتاب کا قلب اختیار کرے گا ۔ اور سچ تو