حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
حجابات اٹھنے لگے۔ اَن دیکھی چیزیں آنکھوں کے سامنے چلتی پھرتی نظر آنے لگی۔ ابوذرؓ نے ٹوٹتی ہوئی آواز میں دنیا والوں کو اس آخری لفظ سے مخاطب فرمایا ’’ قبلہ کی طرف میرا رخ ۱؎ کر دو۔ ‘‘ اس آخری حکم کی آخری تعمیل کر دی گئی۔ اس کے بعد خلوص و سچائی کے اندر ڈوبے ہوئے الفاظ فضائے خیمہ میں اس طرح گونجے۔ ’’ بسم اللہ و باللہ و علی ملۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ‘‘ انہیں پاک آوازوں کے ساتھ خاک آب و آتش و باد کے کرے ایک تاباں روشنی اور مقدس تعلق سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو گئے۔ سراج منیر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار سے دمکنے والا ماہتاب ٹھیک آٹھ ذی الحجہ کو ربذہ کے حوالی افق میں غروب ہوگیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ نفس مطمئنہ ’’ فادخلی فی عبادی و ادخلی جنّتی ‘‘ کی صدائے روح پرور پر زمین سے اکھڑی اور جہاں بلائی گئی پہنچ گئی۔ جس نے اپنے کو خدا کے لئے بنا دیا تھا وہ نہایت امانت کے ساتھ پیمانِ وفا کو پورا کرتے ہوئے جلال و جمال کی مستور کششوں میں غرق ہو کر جس کے لئے تھا اسی کے پاس چلا گیا۔ وما کان قیس ھلکہ ھلک واحد و لکنہ بنیان قوم تھدما مجذوبوں کا سردار رئیس الطائفہ فقیری کی ایک جدید یادگار چھوڑ کر دنیا سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گیا۔جنازہ آنکھیں بند کی گئیں، انگوٹھے باندھے گئے غسل دینے والوں نے نہلایا۔ انصاری نوجوان نے کپڑے نکال کر دیئے اور اس جسم کو جس نے ------------------------------ ۱؎ کامل ابن اثیر ۹۱ ج ۳