حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
نہیں۔ ناصح جب دل گرفتوں کا ہم خیال و ہمدم بن جائے تو اس وقت اطمینان کی جو خنکی دلوں میں محسوس ہوتی ہے حضرت ابوذر کے سینہ کو بھی اسی سے معمور سمجھنا چاہئے۔ حضرت انیسؓ کے خیال کے اس انقلاب نے ان کے تمام غم غلط کر دئے اور ایک مسرورانہ لہجے میں فرمایا۔ ماشفیتنی مما اردت (بخاری) ہم جس مرض کا علاج چاہتے ہیں تم اس کی شفا نہیں لائے ( اور وہ کہاں سے لا سکتے تھے) اس کے بعد کہا کہ انیس! اکفنی اذھب فا نظر (طبقات) تم میری جگہ اب گھر رہو ذرا میں جاتا ہوں۔ تاکہ میں بھی تو دیکھوں کہ کون ہے( کہ ساری تڑپ اور بے چینی اسی ایک نظر کے لئے تھی اور آہ! کہ اس وقت تک کتنوں کو ہے)۔سفر مکہ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ حضرت ابوزر غِفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہٗ اس وقت کیا کر رہے تھے لیکن شیراز کے بلبل نے صدیوں کے بعد اس اشتیاق و بے چینی کی تصویر ان لفظوں میں کھینچی ہے جس کا نقل کرنا اس موقعہ پر ناموزوں نہیں۔ خرم آں روز کزیں منزل ویراں بردم راحت جاں طلبم وزپئے جاناں بردم چوں صبا بادل و بیمار و تن بی طاقت بہوا ورئی آن سرو خراماں بردم ولم از وحشت زندان سکندر۱ بگرفت رخت بر بندم و تا ملک سلیماں بردم ------------------------------ ۱ سکند کی اولوالعزمیاں سرا سر جاہ و مال کی دیوتاؤں کی تابع تھیں اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی سلطنت فقط اعلاء کلمۃ اللّٰہ کے لئے تھی حافظ ؒ اسی طرف اشارہ فرماتے ہیں۔