حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
ہو گیا۔ راہزنی کے تمام ولولے تاخت و تابع کے جوش و خروش یکایک ٹھنڈے پڑ گئے۔ صبح و شام اپنی فرضی عبادت میں محو رہتے۔ترک وطن ایسا خیال ہوتا ہے بنی غفار پر آپ کی اس اجنبی حالت کا خاص اثر ہوا ہو گا۔ اولاً تو ان باتوں کو وہ ایک جنون و دیوانگی سمجھتے ہونگے ثانیاً اُن کو اپنے قوم کے ایک بڑے بہادر کی کمی کا خیال بہت گراں گزرا ہو گا پھر ساتھ ہی اس کے جیسا کہ نفس انسانی کی سلیم فطرت کا اقتضأ ہے کہ وہ اندھے کو کنویں کی طرف جاتا دیکھ کر چلّا اٹھتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ وہ اس میں گر نہ جائے اسی طرح یقیناً حضرت ابو ذر غفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہٗ جن چیزوں کو اپنے روحانی احساس کے ذریعہ سے زہر سمجھ چکے تھے ان کو اپنی قوت فیصلہ کی طاقت پر اس درجہ اعتماد بڑھا ہوا تھا کہ وہ ایام اسلام میں صحابہ کی رایوں کی بھی پرواہ نہیں کرتے تھے جس کی تفصیل آگے آتی ہے تو غالباً اس روک ٹوک کا قصّہ بڑھتے بڑھتے زیادہ طول کھینچا ہو گا تفصیل تو نہ مل سکی گمان ہے کہ نزاع شہر حرام ہی کے متعلق ہوئی۔ اور معاملہ زیادہ نازک ہوا۔ بنی غفار آمادہ اذیت و پیکار ہوئے حتیٰ کہ مجبور ہو کر آپ نے اس وقت ترک وطن کو مناسب سمجھا فرماتے ہیں۔ خرجنا من قومنا غفار و کانوا یحلون الحرم ( طبقات و صحیح مسلم) اپنی قوم غفار سے میں نکل کھڑا ہوا۔ یہ لوگ حرام مہینوں کو حلال سمجھتے تھے۔ اپنی جلا وطنی کے قصہ کے درمیان میں اشہر حُرم ( حرام مہینوں کی ) تحلیل کو لے آنا بتاتا ہے کہ آپ کی زیادہ برافروختگی اسی مسئلہ پر تھی۔