حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
حضرت ابوذرؓ کی لاش پڑی ہوئی تھی۔ ۱؎ پس اگرچہ وہ پہاڑ کی کھوہ میں نہیں گئے لیکن شہروں کے وسط میں ہی آپ نے ایک کھوہ بنا لیا تھا اور یوں ؏ ایں طرفہ تماشہ بیں لبِ تشنہ بآب اندر کے خیالی تصور کی واقعی تصویر۔ اپنی پوری زندگی سے کھینچ کر انھوں نے دکھا دی تھی۔روپیے پیسے کے متعلق آپکی تدبیر میں لکھ چکا ہوں کہ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ’’ کہ ابوذرؓ! جس سونے اور چاندی پر گرہ لگائی گئی وہ اس کے مالک کے لئے انگارے ہیں‘‘ ادھر تو یہ ارشاد فرمایا جاتا تھا، دوسری طرف حکم تھا کہ ’’ بہتریں کاموں میں یہ ہے کہ لوگوں کو کثرت سے سلام کیا کرو۔ مہمانوں کی مہمان نوازی کرو اور رات کو نمازیں اس وقت پڑھو جس وقت دنیاکے لوگ سو چکے ہوں۔‘‘ ظاہر ہے کہ مہمان نوازی کے لئے از بس ضرور ہے کہ انسان کے پاس کچھ پس انداختہ ہو۔ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان دونوں فرمانوں میں اس طرح تطبیق دی تھی کہ آپ کا سالانہ وظیفہ جس وقت بیت المال سے ملتا اٹھتے اور اپنی لونڈی کو ساتھ لے کر سال بھر کا سامان خرید لیتے۔ اس کے بعد لٹاتے بانٹتے۔ پھر جو کچھ بچ جاتا۔ اس کے پیسے بھنا لیتے لوگ پوچھتے کہ تمام روپوں کو پیسے بنانے کی کیا ضرورت تھی آپؓ فرماتے کہ چاندی اور سونے کے رکھنے کی مجھے اجازت نہیں اس لئے میں اسے پیسے بنا لیتا ہوں تا کہ میں ان لوگوں میں نہ رہوں جن کے لئے حضور ﷺ نے دھمکیاں ارشاد فرمائی ہیں۔ الغرض آپ اپنی معلومات سے محض مغلوب و مقہور رہے تھے۔ جو کچھ ------------------------------ ۱؎ طبقات ص ١۸۴