حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
بلاذری میں بھی لکھا ہے کہ کان مکتبہ بالشام الا انہ کان یقدم حاجّا ویسال عثمان الاذن لہ فی مجاورۃ قبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فیاذن لہ فی ذٰلک ( یعنی ان کی اصل چھاؤنی تو شام میں تھی لیکن اجازت لے کر حج کے لئے حجاز بھی آتے اور حضرت عثمانؓ سے کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے جوار میں کچھ دن رہنے کی اجازت دو، وہ ان کو اجازت عطا کرتے) گویا یوں مکہ اور مدینہ میں ان کی آمدورفت کا سلسلہ جاری تھا لیکن اصل قیام گاہ ان کی شام ہی کے شہر دمشق میں تھی ( دیکھو البلاذری ص ۵٦ ج ۵) بہرحال اتنا قطعی ہے کہ خلافت عثمانی میں حضرت ابوذرؓ دمشق میں تھے وہاں کملوں کا ایک معمولی سا جھونپڑا ڈال لیا تھا جس میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ زندگی گزارتے تھے۔ ۱؎مسئلہ کنز جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ امر بالمعروف نہی عن المنکر حضرت ابوذرؓ کا خاص شیوہ تھا۔ سچائی کے اعلان میں دنیا کی کوئی قوت آپ کو روک نہیں سکتی تھی حتیٰ کہ خود علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ فرمایا کرتے، جیسا کہ گزر بھی چکا یعنی۔ ’’کہ اللہ کی باتوں میں ملامت کرنے والوں کی طعنوں سے نہ ڈرنے والا صرف ابوذرؓ رہ گیا ہے۔ ‘‘ الغرض مشکوٰۃ نبوت سے جو روشنی آپ کو عطا کی گئی تھی اسی روشنی کے عام کرنے میں آپ کبھی دریغ نہیں فرماتے تھے۔ جب موقع ملتا اسی فکرو عمل میں مصروف رہتے حتیٰ کہ تم آغاز کتاب میں پڑھ آئے ہو کہ اعلان توحید میں آپ پر کیا کیا مصائب نازل ہوئے لیکن آپ کو اس کی کوئی پروا نہ ہوتی تھی۔ یہی ------------------------------ ۱؎ طبقات ابن سعد جز رابع۔