حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
اندب لی ان اخرج الی الربذہ آپ اجازت دیجئے تا کہ میں ربذہ چلا جاؤں۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی اجازت دے دی اور فرمایا کہ اچھا آپ وہاں جا سکتے ہیں۔ میں بیت المال سے کچھ اونٹنیوں کو دودھ کے لئے آپ کے پاس بھیج دوں گا۔ ۱؎ لیکن حضرت ابوذرؓ کی غنی طبیعت نے اس کو قبول نہیں کیا بلکہ قریش کے نوجوان جو وہاں بیٹھے ہوئے تھے ان کو مخاطب کر کے آپ نے فرمایا۔ دونکم معاشر قریش دنیاکم فاغنموھا لا حاجۃ لنا فیھا۔ قریشیو اپنی دنیا کو تم لے لو اور اسے خوب زور سے تھامو، ہمیں اس کی کوئی ضرورت وحاجت نہیں۔ یہ فرما کر آپ حضرت عثمانؓ سے رخصت ہوئے اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ زہد عیسوی کا جو کامل نمونہ تھا محمدی مسحیت کا وہی مظہراتم اپنی آخری زندگی گزارنے کے لئے، اسی صحرا کی طرف روانہ ہو گیا جہاں سے پھر کہیں منتقل نہیں ہوا۔ربذہ ذات عرق سے جو سڑک مکہ معظمہ کو گئی تھی ٹھیک اسی کے کنارے ربذہ ایک مختصر سے گاؤں کی صورت میں آباد تھا اور مدینہ منورہ سے کل تین منزل دور تھا۔ اصمعی فرمایا کرتے تھے کہ لوگ نجد کا تذکرہ کرتے ہیں اس کے عرارو بہار۲؎ کی روح پرور نسیم پر سر دھنتے ہیں حالانکہ نجد کا سب سے عمدہ قطعہ شرف ہے جسے میں نجد کا جگر سمجھتا ہوں اسی خطہ شرف میں ربذہ بھی شامل تھا۔ شرف میں جو خاص سرکاری رکھت تھی، ربذہ اس کے داہنے جانب پر واقع تھا ۳؎ حضرت ابوذرؓ کی زندگی جس طرز کی ہو گئی تھی، حقیقت یہ ہے کہ اس کے ------------------------------ ۱؎ بن سعد۔ ۲؎ عرارو بہار نجد کے دو خوشبودار پھول کے نام ہیں عرب کا شعرا اس کے بہت دلدادہ تھے۔ ۳؎ معجم البلدان۔