حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
یہ ایک ایسا دل خراش مسئلہ تھا کہ نا سمجھ دولتمندوں کی پیشانیاں بالآخر یہاں بھی چڑھنے لگیں، غربا امیروں پر ٹھٹھے کرنے لگے داغ داغ کی صدا ہر طرف بلند ہونے لگی۔ آہستہ آہستہ یہاں بھی اس مسئلہ نے زور پکڑا مسند احمد میں صاف طور سے مذکور ہے۔ ’’ کہ مدینہ والے آپ سے بگڑ گئے اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ کی شکایت شروع کی۔ ‘‘ بہرحال، بہر زمیں کہ رسیدیم آسماں پیداست، مخالفین نے یہاں بھی آپ کو ستانا شروع کیا حضرت عثمانؓ کے کان میں کثرت سے یہ آواز پہنچائی گئی۔ ’’ کہ جس وجہ سے انھیں شام سے بلوایا گیا مدینہ میں بھی آ کر انھوں نے وہی سلسلہ چھیڑ دیا ہے ایک فساد برپا ہو رہا ہے۔ ‘‘۱؎دربار خلافت میں کعب احبار سے مناظرہ حضرت عثمانؓ نے تنگ آکر آخر آپ کو بلوایا دربار میں کعب احبار موجود تھے حضرت عثمان نے اشارہ کیا، ان سے بحث کرو ۲؎ اور سمجھاؤ کعب احبار آگے بڑھے اور مخاطب کر کے اس طرح تقریر شروع کی۔ ------------------------------ ۱؎ طبقات ص ١٦٦ ج ۴۔ ۲؎ البلاذری نے انساب الاشراف میں لکھا ہے کہ گفتگو کی ابتدا ایک خاص مسئلہ سے خود حضرت عثمانؓ نے کی یعنی آپ نے حاضرین مجلس کو خطاب کر کے یہ مسئلہ پوچھا کہ مسلمانوں کے امیر اور امام کے لئے کیا یہ جائز ہوگا کہ بطور قرض کے بیت المال سے رقم لے اور حسب سہولت ادا کردے۔ اس پر کعب احبار نے فتویٰ دیا کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، بس اس مقام سے حضرت ابوذرؓ کا رخ کعب احبار کی طرف پھر گیا۔ غالبًا اس کے بعد وہ مکالمہ دونوں میں شروع ہوا۔