حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
مرض شدت پذیر ہے عین اسی حال میں حکم ہوتا ہے کہ ابوذرؓ کو بلاؤ، لوگ دوڑتے ہیں لیکن وہ وارفتہ جمال نبوی خدا جانے کدھر نکل گیا تھا تھوڑی دیر میں جب واپس ہوئے اور معلوم ہوا کہ طلبی ہوئی تھی ہانپتے کانپتے آستانے پر پہنچے باریابی ہوئی۔ حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ لیٹے ہوئے تھے ضعف سے اٹھ نہ سکے میں آپ ﷺ کی طرف جھکا اس وقت آپ ﷺ کے دونوں ہاتھ بڑے اور مجھے اپنے صدر منشرح سے چمٹا لیا ۱؎ پھر اس کے بعد کیا ہوا اس کا پورا علم تو حضرت ابوذرؓ کو ہوگا تاہم اتنا تو دنیا کو بھی معلوم ہوا کہ اس کے بعد ابوذرؓ سے پندار و خودی آرزو و خواہش کے خس و خاشاک جل کر کچھ اس طرح بھسم ہوئے کہ پھر کبھی نہیں اگے۔ مطلع سینہ نبوی سے ابوذرؓ کے پہلو میں وہ درد اترا جس کے بعد انسان ہمیشہ مجنون و دیوانہ مشہور ہوا ہے۔صحبت نبویہ کے آثار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والذین معہ ( بلکہ وہ بھی جو آپ ﷺ کے ساتھ ایمانًا نہ تھے پر آپ ﷺ کے زمانہ میں تھے) کے باہمی تعلقات کو ذہن نشین کرانے کے لئے ہمارے سامنے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے اس تمثیلی بیان سے غالبًا زیادہ مؤثر کوئی چیز نہو یعنی اپنے مکتوبات میں ایک مقام میں ارقام فرماتے ہیں۔ ’’ آفتاب جگر آسمان پر تھراتا ہوا جلوہ افروز ہوتا ہے، دھوبی اپنے کپڑے صاف کر کے اس کی گرم گرم شعاعوں کے سامنے ان کپڑوں کو پھیلا کر ------------------------------ ۱؎ مسند احمد بن حنبل الامام