حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
مقصد یہ تھا جب تم کو فاروق اعظم نے اچھا کہا ہے تو یقینًا تم اچھے ہو اور اچھوں کی دعائیں مقبول ہوتی ہیں۔ یہاں یہ مسئلہ قابل غور ہے کہ عمومًا امامیہ طبقے کے لوگ حضرت ابوذرؓ کو اصحاب طیبین و طاہرین میں شمار کرتے ہیں۔ لیکن حضرت ابوذرؓ جس ذات کو طیب خیال فرماتے ہیں اور جس کی تصدیق کو گویا آسمانی تصدیق وہ سمجھتے تھے۔ کس قدر عجیب ہے کہ ان کی اونچی شان پر وہ منھ نہ آتے اور ان کی پاک نیت پر حملے کرتے ہیں۔ غضیف سے حضرت ابوذرؓ نے جس چیز کی درخواست کی تم خود انصاف کرو کہ کیا تقیہ کی کسی شق کے نیچے وہ داخل ہو سکتا ہے؟ ان کو کس نے مجبور کیا تھا کہ خواہ مخواہ غضیف سے دعا کے لئے الحاح و زاری کریں فما لھؤلاء القوم لا یکادون یفقھون حدیثا۔سفر دمشق الشام مدینہ منورہ کے قریب ایک نامی پہاڑی سِلع ۱؎ ہے۔ حضرت ابوذرؓ کو سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی کہ اذا بلغ البناء سلعا فارتحل الی الشام ( مسند احمد ابو یعلی ) جب مدینہ کی آبادی جبل سلع تک پہنچ جائے تو تم شام کی طرف کوچ کر جانا۔ یہ فرمان کیوں دیا گیا تھا، اس کی صحیح علت مجھے معلوم نہیں، مراتب ------------------------------ ۱؎ یہ پہاڑ اس نام سے مدینہ منورہ کے سامنے اب تک موجود ہے، یہی وہ کوہ مبارک ہے جس کا ذکر حضرت یسعاء نبی کی کتاب میں ان لفضوں میں آیا ہے۔ ’’ سِلع کے باشندے ایک گیت گائیں گے، پہاڑوں کی چوٹیوں سے للکاریں گے وہ خداوند کا جلال ظاہر کریں گے۔‘‘ کون نہیں جانتا کہ طلع البدر علینا کا گیت سلع کے باشندوں نے کب گایا اور کس کے لئے گایا